کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 217
((اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ۔)) [1] ’’جب تم نے حیا نہیں کی تو پھر جو چاہو کرو۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی علم و ادب اور اصلاح اور ہر قسم کے علوم و فنون حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو یہ کہنا صحیح ہوگا، اس لیے کہ مفید علم کا حصول مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں مطلوب و مرغوب ہے، لیکن کچھ علم ایسے ہیں جن کو علم نہیں جہالت کہنا چاہیے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علوم سے پناہ مانگی ہے جو مفید نہ ہو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بری چیز سے پناہ مانگتے تھے، نیز اس علم نافع کو تو عورت اپنے شوہر ہی میں رہ کر کتابوں اور علماء کی مدد سے تنہا حاصل کر سکتی ہے، مردوں اور عورتوں کے لیے حصول علم کا یہی طریقہ ہے، اور ماہرین علم اور جنہوں نے بھی اپنے علم کو ترقی دی سب نے اسی طریقہ سے حاصل کیا، تو عورت آخر اس طریقہ کو کیوں چھوڑ دے جس کی بناء پر اس کو اور اس کے سرپرستوں کو ایسے سفر کی لالچ کرنی پڑے جسے عورت کے لیے شارع نے حرام قرار دیا ہے، ارشاد نبوی ہے: ((لَا یَحِلُّ لِامْرَاَۃٍ تُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ تُسَافِرُ مَسِیْرَۃَ یَوْمٍ وَ لَیْلَۃٍ اِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ۔)) [2] ’’جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ محرم کے بغیر ایک دن و رات کی مسافت کا سفر کرے۔‘‘ خصوصاً ایسا سفر جس میں خطرات و نقصانات کا سامنا کرنا پڑے، اور کلبوں اور سوسائٹیوں اور دیگر حالات و اوقات میں اجنبیوں سے میل جول ان کے ساتھ خلوت ہو جسے عورت کی اپنے سر پرست اور شوہر کی غلامی سے آزادی کا نام دیا جاتا ہے، خدا را مجھے بتاؤ کہ اپنی لڑکیوں کو عیسائی درسگاہوں میں بھیج کر جہاں انہی کے برے آداب سکھائے جاتے ہیں
[1] بخاری، باب إذا لم تستحی فاصنع: ۶۱۲۰۔ [2] مسلم ، باب سفر المرأۃ مع محرم: ۱۳۳۹۔