کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 212
کرتے جاتے ہیں اور کچھ عربی ممالک تو ایسے ہیں جو عوامی مطالبات سے مجبور ہو کر یونیورسٹیوں میں اختلاط کو دعوت دے رہے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ وہاں اخلاقی فسادات، منکرات، بے آبروئی، اختلاف و نفاق و بد اخلاقی اس کثرت سے عام ہو گئی ہے جو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم برے اخلاق و اعمال و اقوال سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ صاحب المنار علامہ رشید رضا مصری نے لکھا ہے کہ مصر میں جو لوگ اختلاط کے مطالبہ کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں وہ دین اسلام اور اس کے اخلاق و آداب سے نکل چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب مسلمان بھی دین سے آزاد ہو جائیں ، ان کی خواہش ہے کہ مسلمان دنیا میں جانوروں جیسی زندگی گزاریں جن پر نہ امرو نہی کی ذمہ داری ہو نہ نماز و روزہ کی اور نہ حلال و حرام کی۔ ۷۔ عریاں فلموں کی تباہ کاری: اس اخلاقی بگاڑ میں سب سے بڑا ہاتھ ننگی فلموں ، بیہودہ تصویروں اور شرمناک واحشات کا دیکھنا اور مشاہدہ کرنا بھی ہے جو عقلوں سے کھیلتی اور فضولیات میں مبتلا کرتی ہیں ، یہ فلمیں اس درس کا کام دیتی ہیں جو عورتوں اور جوانوں کے دلوں میں عشق اور برائیوں کی طرف رغب کی خواہش پیدا کرتی ہیں ، اس طرح کے خالی دل کو فکر مند بنا دیتی ہیں جس میں صدمہ اور غم چھپا رہتا ہے اور ایسے مسلسل سوچ و فکر میں مبتلا کر دیتی ہیں جس کا انجام بیداری اور اس نیند کی لذت سے محرومی ہے جس کو اللہ نے لوگوں کے لیے راحت اور جسم کے لیے صحت کا سبب بنایا ہے۔ یہ فلمیں کمزور دل جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے مکر و فریب کے شکاری جال کا کام دیتی ہیں خصوصاً عورت کے لیے جن کی دل شکستگی اور سرعت میلان کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ’’آبگینے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ان فلموں میں چلتی پھرتی تصویروں کو دیکھنے اور طرب انگیز کی آواز سننے سے یہ صاف احساس و مشاہدہ ہوتا ہے کہ وہ دلوں کو ورغلاتے ہیں اور ان فلموں میں عشق و معانقہ اور مار دھاڑ کے مناظر کا مشاہدہ دلوں میں ہیجان پیداکرتا ہے جس سے ایمان کمزور ہوتا ہے اور فسق و عصیان کا پرستار بن کر ذلت و رسوائی کی پستی میں