کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 211
اور زنا ان کے درمیان ایک عادی چیز بن گیا جس کے اتکاب سے عورت معیوب نہیں سمجھی جاتی بلکہ رفتہ رفتہ حالت یہ ہو گئی کہ اس عورت کی تعریف کی جانے لگی جو شادی سے قبل ہی ایک یا دو بچے کی ماں بن کر ازدواجیت کا تجربہ حاصل کر چکی ہو، یہ ہے وہ آزادی جس کے لیے عیسائیوں کی تعریف کی جاتی ہے حالانکہ اس آزادی نے خاندان کو تتر بتر کر ڈالا ہے اور ان کو اسلامی پاکدامنی کی حفاظت میں پھنسا رکھا ہے جو کمال و جمال کی جامع ہے۔ ایک صاحب عقل کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اختلاط کے مبداء کے مقصد اور برے انجام کو جان لے اور یہ سمجھ لے کہ اختلاط کے حامی و داعی چاہتے ہیں کہ ان کی عورتیں اور بیٹیاں اور شہر والے بھی مغربی عورت کی طرح بن جائیں ، اگر وہ ایسا نہیں بھی چاہتے تو اہل یورپ کی تقلید و اتباع ہی ان کو اختیاراً نہ سہی جبراً اس اختلاط تک پہنچا دے گی اور برائیوں کا دور کرنا ان کے پھیلنے کے پہلے ہی آسان ہے عام ہو جانے کے بعد ان کا مقابلہ مشکل ہے۔ ان منکرات کا سننا ہی جب اتنا برا ہے تو ان کا دیکھنا کتنا برا ہوگا۔ مرد و زن کے اختلاط کا یہ فتنہ کچھ عرب مسلم میں بھی پایا جاتا ہے جس کی عام وجہ یہی ہے کہ وہاں دینی حالت حد درجہ کمزور ہے، ان عرب مسلمانوں کا ملنا جلنا جب یورپ کے عیسائیوں کے ساتھ زیادہ بڑھا اور یہ انہیں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے لگے اور اپنی آنکھوں سے وہاں یورپین عورتوں اور مردوں کے باہمی اختلاط کا مشاہدہ کیا تو مسلسل مشاہدہ کی وجہ سے اختلاط کی برائی کا احساس ان سے ختم ہو گیا، کیونکہ برائی کا مشاہدہ اس کے ارتکاب کے برابر ہے اس کی وجہ سے حق و باطل کی تمیز اور برائی کے انکار کا نور دل سے ختم ہو جاتا ہے۔ جس کی خاص وجہ یہ ہے کہ برائیاں جب دل پر کثرت سے پڑتی ہیں اور آنکھیں ان کا بار بار مشاہدہ کرتی ہیں تو ان کی وحشت دھیرے دھیرے بھی برا نہیں سمجھتے اور نہ کسی کے خیال میں یہ بات آتی ہے کہ یہ برائیاں ہیں اور ایسا محض اس لیے ہوتا ہے کہ دلوں سے تمیز و انکار کا نور سلب ہو جاتا ہے جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ: ’’جب چھونا زیادہ ہوگا تو حساس کم ہوگا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ دینی کمزوری کی وجہ سے لوگ عیسائیوں کے اخلاق کو آہستہ آہستہ جذب