کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 210
جب یہ خراب ہو جاتے ہیں تو سب لوگ خراب ہو جاتے ہیں ، یعنی علماء اور امراء۔ ۶۔ مغربی تہذیب کا طوفان: مسلمانوں میں تمہیں اس فتنے سے خبردار کر رہا ہوں جو تمہارے قریب آ چکا ہے تمہیں اس کا احساس ہونا چاہیے کہ تم ملت اسلامیہ کے پیرو ہو، یہودی اور عیسائی نہیں ہو۔ ہمارا دین فضائل و فرائض کی پابندی کی تعلیم دیتا ہے، برے اخلاق و رذائل سے بچنے کی تاکید کرتا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی لیے بھیجے ہی گئے تھے کہ ہمارے لیے مکارم اخلاق کو پورا کر دیں ، اور مرد و زن کا یہ اختلاط بدترین اخلاق میں شمار ہوتا ہے، اس مسلمانوں کے اخلاق سے کوئی تعلق نہیں بلکہ عرب جاہلیت کا اخلاق بھی ایسا نہیں تھا کیونکہ اپنے شرکیہ عقائد کے باوجود وہ اپنے حسب و نسب اور عورتوں کی حفاظت کے لیے لڑنے مرنے پر تیار رہتے تھے۔ وہ بے حد خوددار اور عصمت کے محافظ تھے، یہاں تک کہ ان میں زنا بھی شاذو نادر ہی ہوا کرتا تھا، جیسا کہ ہندہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعجب کے ساتھ کہا، کیا آزاد عورت بھی زنا کرے گی، یعنی لونڈی کے بارے میں تو ایسا سوچا جا سکتا ہے لیکن شریف زادیوں کے بارے میں تو زنا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ نیز مرد عورت پر حاکم ہیں کیونکہ اللہ نے ان کو عورتوں پر فضیلت بخشی ہے، لیکن جب مرد کی حاکمیت اور اپنی ماتحت پر اس کی نگرانی وغیرت ختم ہو جاتی ہے تو عورت کا مزاج بھی بدل جاتا ہے اور اس سے وہ سب کچھ ہونے لگتا ہے جو مرد نہیں چاہتا۔ اختلاط کی یہ بدعت یورپ کے عیسائیوں میں شروع ہوئی، ان کی شریعت میں زنا اور محرکات زنا حرام تھے، لیکن اپنی عورتوں میں شدت عفو کی بنا پر انہوں نے جوان لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان اختلاط کی بدعت شروع کی تاکہ وہ اپنی عورتوں کی خواہشات کا ساتھ دیں جس سے دونوں جنسوں کے درمیان حیاء دبدبہ او راجنبیت ختم ہو جائے، پھر انہوں نے بداخلاقی اور بدکاری کے لیے کھلی چھوٹ دے دی اور عورت کو پوری پوری آزادی دے دی کہ وہ جس طرح چاہے رہے اس کے شوہر اور باپ کو روک ٹوک کا کوئی حق حاصل نہیں ۔ وہ جس یار کے ساتھ چاہے گزر بسر کرے اور اسی بنیاد پر زنا اور لواطت کے جواز کا قانون بھی بن گیا،