کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 21
((مَنْ قَطَعَ تَمِیْمَۃً مِّنْ اِنْسَانٍ کَانَ کَعَدْلِ رَقَبَۃٍ لِّکَوْنِہٖ اَنْقَذَہٗ مِنْ عَبُوْدِیَّۃِ الشَّیْطَانِ۔)) ’’جس نے کسی کے جسم کی تعویذ کاٹ دی اس نے گویا ایک گردن آزا د کر دی کیونکہ اس نے اس آدمی کو شیطان کی غلامی سے بچا لیا۔‘‘ الغرض جو شخص کوئی چیز لٹکائے گا اللہ اس کو اسی چیز کے سپرد کر دے گا، جس سے وہ تکلیف او ربے چینی اور مختلف قسم کے نقصانات اورامراض مثلاً مرگی وغیرہ میں مبتلا ہو جائے گا، اور جو شخص اپنے رب پر توکل کرے گا اور اس کی طرف رجوع ہوگا اور اپنے کاموں کو اس کے حوالے کر دے گا تو اللہ اس کے لیے ہر شہر سے کافی ہو جائے گا، اور جو اللہ پر توکل کرے گا، اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ عام طور پر تعویذ لٹکانے کو جو لوگ اچھا سمجھتے ہیں اور اس دھندے میں لگے ہوئے ہیں وہ وہی لوگ ہیں جو عوام اور ضعیف العقل عورتوں کو دھوکا دے کر اس کے ذریعے اپنی کمائی حاصل کرتے ہیں ، شاعر نے کہا: اراد احراز مال کیف امکنہ فظل یکتب للنسوان احراز ’’ہر ممکن طریقہ سے مال سمیٹنے کا اُس نے ارادہ کیا تو عورتوں کے لیے تعویذ لکھنا شروع کر دیا۔‘‘ لیکن آیات قرآنی اور ادعیہ نبویہ کے ذریعہ دم کرنا مشروع ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دم کیا اور آپ پر بھی دم کیا گیا اور آپ کا ارشاد بھی ہے: ’’اگر دم میں شرک نہ ہو تو کچھ حرج نہیں اور معوذتین کی سورہ ﴿ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ تو جھاڑ پھونک کے لیے ہی نازل ہوئیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پڑھ کر اپنی ہتھیلیوں پر پھونکتے تھے اور بدن پر جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتا تھا پھیرتے تھے، جب آپ بیمار ہوئے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسی طرح آپ پر دم کرتی تھیں ۔ آپ کو تکلیف پہنچتی تو سیّدنا جبرائیل علیہ السلام نے ان