کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 209
کرنے لگتی ہیں ۔ ان کے نزدیک نصاریٰ کی یہ تہذیب، تمدن اور روشن خیالی ہے، ان کو نہیں معلوم کہ اس نئی روشنی کے نام نہاد و علمبردار خود اس اختلاط اور اس کے پیدا ہونے والے مختلف قسم کے نقصانات اور اخلاق کے بگاڑ سے عاجز اور تنگ آ چکے ہیں کتنے ایسے ہیں جو برے عادات و اطوار کو دیکھ کر شادی کرنے سے گریز کرتے ہیں ، وہ خود کہتے ہیں کہ آخر اس عورت سے کس طرح شادی کی جائے جس کا ہاتھ پکڑ کر اس جوان یار بازاروں میں لے جاتا ہے۔ دو تین دن اس کے ساتھ رہ کر واپس آتا ہے اور ہم نہ اس سے چھٹکارا لا سکتے نہ روک سکتے۔ ایک دوسر اشخص کہتا ہے مجھے مسلمانوں کی جن چیزوں پر رشک آتا ہے ان میں میرے نزدیک سب سے اہم چیز ان کی عورتوں کا محفوظ رہنا ہے۔ ہم نے اب تک جو کچھ کہا ان کی صحت میں کسی بحث وجدال کی گنجائش نہیں ، کاش! مسلمانوں میں ایسے عقل مند رؤسا ہوتے جو ان احمقوں کو اس آوارگی سے روکتے اور انہیں حق کا پابند بناتے اور اپنی بہتر تدبیر اور عمدہ نگرانی کے ساتھ ملک کے کاموں کو چلاتے اور مفید چیزوں کے حصول اور نقصان دہ چیزوں کے دور کرنے میں معاون ثابت ہوتے لیکن افسوس سب نراج میں مبتلا ہیں جن کا کوئی سردار نہیں ۔ تہدی الامور باہل الرائی ما صلحوا فان تولوا فبالا شرار تنقاد لا یصلح الناس فوضٰی لاسراۃ لہم ولاسراۃ اذا جہالہم سادوا ’’جب تک اہل رائے درست رہتے ہیں سب کام ٹھیک چلتے ہیں اگر وہ پشت پھیر لیں تو امور شہر شر پسندوں کے تحت ہو جاتے ہیں ۔ بے سرے لوگ جن کا کوئی سردار نہیں ہوتا کبھی درست نہیں ہوتے اور جب جہلا سردار بن جائیں تو سرداری بھی نہیں رہتی۔‘‘ حکماء نے کہا ہے جب دو قسم کے لوگ ٹھیک رہتے ہیں تو سب لوگ ٹھیک رہتے ہیں اور