کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 207
نقصان صرف اسی حد تک محدود نہیں رہے گاکہ عورتیں اجنبیوں کے سامنے اپنی زینت ظاہر کر کے اللہ کی نافرمانی کی مرتکب ہوں گی اور اغیار کے ساتھ اختلاط میں جری ہو جائیں گی اور اس سے دین، شرف، عزت و حسب کی بربادی ہو گی، نہیں بلکہ اگر اس کا مقابلہ نہیں کیا گیا اور دل و اصلاح کے منصب پر فائز حضرات نے روک ٹوک نہیں کی تو یہ فتنہ ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک رنگ چھوڑ کر دوسرے رنگ میں رنگ کر اندھی تقلید اور متعدی مرض کی طرح وبا عام کی شکل میں پھیل جائے گا کیونکہ اخلاق و عادات بڑی تیزی کے ساتھ بدلتی اور پھیلتی ہیں جیسا کہ بدعات اور برے اخلاق کی اشاعت کا حال سب کو معلوم ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے جو عوام الناس کے بگڑ جانے پر بھی دین پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((طُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ الَّذِیْنَ یُصْلِحُوْنَ اِذَا اَفْسَدَ النَّاسُ۔ وَ فِیْ رِوَایَۃٍ یُصْلِحُوْنَ مَا اَفْسَدَ النَّاسُ۔)) [1] ’’ان غرباء کو مبارکباد ہو جو عوام کے بگڑ جانے پر بھی اصلاح میں لگے رہتے ہیں ۔ (دوسری روایت میں ) جس چیز کو لوگوں نے بگاڑ دیا اس کو یہ سدھارتے ہیں ۔‘‘ لیکن بہت سے بروں کے درمیان ایسے چند صالح ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے مرد صالح کی برکت سے اس کے گھر والوں اور شہر کے بہت سے لوگوں کی اصلاح فرماتا ہے، اور ایک دوسرے کی تقلید وہ بدترین برائی ہے جو لوگوں میں شر کو جنم دیتی ہے اور منکرات کا ارتکاب کراتی ہے، اس لیے کہ عوام دوسرے کی تقلید میں برا کام نہایت آسانی سے کر گزرتے ہیں ، حالانکہ برائی میں کسی کی نقل و پیشوائی جائز نہیں ، اسی لیے کہا گیا ہے کہ چلنے والوں کی قلت دیکھ کر اسلام کے راستوں سے وحشت مت کھاؤ اور اخلاق دین ترک کرنے والوں کی کثرت سے دھوکا مت کھاؤ، کیونکہ ارشاد الٰہی ہے:
[1] جامع ترمذی، باب ان الاسلام بداگ غریبا: ۲۶۳۰۔ المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۳۴۸۹۔