کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 204
۳۔ اختلاط کے جواز کے لیے اکثریت کا ہوّا: ہلاکت سے یہاں اخلاقی ہلاکت مراد ہے کیونکہ اخلاق کی تباہی جسم کی تباہی سے زیادہ نقصان دہ ہے اور فتنہ عقل سے زیادہ شدید ہوتا ہے صاحب عقل و ہوش حضرات کے لیے یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ مفسد اخلاق اشیاء کے حصول کے لیے عوامی مطالبہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں ۔ کیونکہ مطالبات کی کثرت محرمات کی اباحت کے لیے حجت نہیں ہو سکتی جبکہ محرمات کے بطلان پر دلیل و برہان موجود ہے۔ نیز مطالبات کی کثرت اکثر اشیاء کی ہویٰ و ہوس ہی کے جذبے سے ہوتی ہے، ارشاد خدا وندی ہے: ﴿وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ﴾ (الانعام: ۱۱۶) ’’اور اگر آپ ملک کی اکثریت کی اطاعت کریں گے تو آپ کو راہ الٰہی سے بھٹکا دیں گے وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں ۔‘‘ آج کل اکثر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ دین اور اس کے اخلاق و آداب اور حلال و حرام کے بندھن سے آزاد ہو جائیں اور جانوروں جیسی بے لگام زندگی گزاریں جس میں نہ امر و نہی کی پابندی ہو نہ نماز روزہ اور حلال و حرام کی قید۔ ۴۔ اختلاط سے اباحیت تک: جن ملکوں میں اسلام کے خیمے اکھاڑ دیے گئے اور وہاں کے لوگوں نے نماز و روزہ کا فریضہ ترک کر دیا او رکھلم کھلا بد اخلاقی اور نافرمانی میں مبتلا ہو گئے او رپوری عقل و دانش اور قوت کار صرف دنیا کمانے اور خواہشات بطن و فرج کی اتباع میں لگا دی اور فرائض الٰہی کو چھوڑ کر امر آخرت کو فراموش کر ڈالا ان سے عبرت پکڑو اور دیکھو ان کا حال کیا ہوا، اور نقص و جہالت و فکر اور اخلاق و عقائد اور اعمال کی بربادی کس طرح ان میں سرایت کر گئی یہاں تک کہ وہ جانور ہو گئے، راستوں میں قتل و خونریزی کرنے لگے نہ انہیں روزے کا حال معلوم نہ نماز کا نہ انہیں معروف سے محبت نہ منکر سے نفرت، نہ کسی ناگوار بات سے رکتے نہ حق کی راہ