کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 203
بند کر دیا ہے جو بے حیائی اور فساد کی طرف لے جاتے ہیں اور نکاح حلال کے نظام کو درہم برہم کرنے والے ہیں ۔ اس سلسلے میں اس کا ارشاد ہے: ﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ﴾ (الطلاق: ۱) ’’یہ اللہ کی حدود ہیں جو حدود اللہ سے تجاوز کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔‘‘ ۲۔ علماء و امراء کی ذمہ داریاں : امراء علماء اور وزراء کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دین اور وطن کی سرحدوں کے محافظ بنیں اور بندگان خدا میں الحاد اور بگاڑ پیدا ہونے سے روکیں اس لیے کہ ان کا فرض ہے کہ حصول مصالح اور دفع ضرر کے لیے ایک دوسرے کے ساتھی اور معاون بنیں بھلی باتوں کا حکم دیں اور بری باتوں سے روکیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں ، اگر یہی حضرات اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے، اور اپنے دین و وطن کی حمایت میں سستی کریں گے اور شراب کو کھلی چھوٹ دے دیں گے کہ ملک میں لائی جائے اور دوکانوں پر فروخت کی جائے اور ملک میں فساد و بے حیائی کو پروان چڑھنے دیں ، اور نقصان دہ چیزوں سے روکنے کے لیے ظالموں کا ہاتھ نہ پکڑیں تو پھر ملک کی بربادی اور عوام کا بگاڑ یقینی ہے، خصوصاً عورتوں اور بچوں کا بگڑنا تو لازمی ہے۔ اس آزادی سے آوارگی پھیلے گی آبروئیں برباد ہوں گی اور ملک فتنہ و فساد سے بھر جائے گا، کیونکہ قومیں اخلاق ہی سے زندہ رہتی ہیں اخلاق کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ قومیں بھی ختم ہو جاتی ہیں ، ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوْا فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیْرًاo﴾ (بنی اسرائیل: ۱۶) ’’اور ہم جب کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو بستی کے خوش عیش لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں خوب فسق و فجور کرتے ہیں جب حجت پوری ہو جاتی ہے تو ہم اس کو پوری طرح تباہ و غارت کر ڈالتے ہیں ۔‘‘