کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 200
کے لیے آپ سے راضی نہ ہوں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تھا: ((یَأْبَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ اِلَّا اَبَا بَکْرٍ۔)) ’’اللہ اور اس کے رسول ابو بکر ہی سے راضی ہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تیسرے دن لوگ آپ کی تجہیز و تکفین میں لگ گئے اور حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کو غسل دینے کا کام انجام دیا اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اگر میں پہلے سے جانتی تو پیچھے نہ ہٹتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عورتوں کو غسل دیا ہے اس لیے عورت کے لیے بھی جائز ہے کہ اپنے شوہر کو غسل دے۔ جس طرح شوہر کے لیے جائز ہے کہ اپنی بیوی کو غسل دے۔ تجہیز و تکفین کے بعد لوگ آپ کو نماز جنازہ کے لیے لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے مردوں نے جنازہ کی نماز ادا کی، پھر بچوں نے پڑھی، پھر عورتوں نے، اور آپ فرماتے تھے کہ نبی جس جگہ مرتا ہے اس جگہ دفن بھی کیا جاتا ہے، اس لیے آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں دفن کیا گیا۔ آپ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ان کو آپ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پہلے ہی یہ اجازت طلب کی تھی کہ انہیں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے جس کی انہوں نے اجازت دی تھی، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خواب میں دیکھا کہ ان کے گھر میں تین چاند آ کر گرے ہیں ، جس کا مطلب ان تینوں مقدس ہستیوں کا ان کے کمرے میں مدفون ہونا ہے، اور تعزیت کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ گھر والوں سے کہا جائے، السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہٗ، ہر ضائع ہونے والی چیز کے لیے تسلی اللہ ہی کی ذات میں ہے، اور ہر تباہ ہونے والی چیز کا بدل اللہ ہی کی طرف سے ملتا ہے۔ پس اللہ پر بھروسا رکھو، اور اس کی رحمت کے امید وار بنو، کیونکہ حقیقت میں تو مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم کر دیا جائے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ یہ ہے مختصر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا، او ریہ بتایا گیا ہے کہ آپ کی اُمت کے اعمال آپ پر پیش کیے جاتے ہیں ، آپ اُمت کی استقامت اور اللہ کی اطاعت کے لیے ان