کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 199
شخص الٹے پاؤں لوٹے گا تو ہر گز اللہ کو تکلیف نہیں پہنچا سکتا اور اللہ قدر داں لوگوں کو جزا دے گا۔‘‘ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو میں کمر کے بل دہرا ہو گیا (یعنی مارے حیرت کے جھک گیا) ایسا معلوم ہو اکہ آج سے پہلے میں نے اس آیت کو سنا ہی نہیں تھا، اور مجھے یقین ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے اور مدینہ کے تمام مرد و زن کی زبانوں پر یہی آیت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کیا تھا جس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا۔ حضرت عمر بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ لوگ مدینہ سے قریب جرف میں پڑاؤ ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت کا انتظار کر رہے تھے کہ دیکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیماری سے شفا پاتے ہیں یا نہیں ؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو مدینہ میں بڑا بھونچال اُٹھا بہت سے عرب دین سے پھر گئے، اور کہنے لگے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہوتے تو وفات نہ پاتے۔ چنانچہ صحابہ کرام نے مدینہ کی گلیوں پر پہریداروں کو مقرر کر دیا۔ جب معاملہ بڑا سنگین ہو گیا تو صحابہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے مطالبہ کیا کہ اسامہ کی فوج کو مدینہ میں لوٹا دیں تاکہ مرتد ہونے والوں کے مقابلہ کے لیے طاقت حاصل کی جا سکے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم! میں اس جھنڈے کو کھول نہیں سکتا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، چاہے فتنہ اتنا بڑھ جائے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پر حملہ کیا جانے لگے۔ لوگوں نے کہا اگر صرف تنہا عمر کا معاملہ ہے تو کچھ حرج نہیں ، اور اسامہ اپنے لشکر کو لے کر پروگرام کے تحت نکل پڑے، چنانچہ اس لشکر کی وجہ سے مسلمانوں کو برکت، عزت اور فتح نصیب ہوئی، کیونکہ لشکر مرتد ہونے والوں میں سے جس کے پاس سے بھی گزرتا، اس کو دین اسلام میں واپس لے آتا اور صحابہ کی ایک جماعت بیعت لینے میں لگ گئی تاکہ مسلمانوں کی جماعت کا اتحاد قائم رہ جائے، چنانچہ سب نے برضا ورغبت سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دین کے لیے آپ سے راضی تھے تو کیا ہم اپنی دنیا