کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 198
رہنا پسند کرتے ہیں تو سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی جائے۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہ گئے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے ہوئی، اور آپ نزع کی شدت کا احساس فرما رہے تھے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا جو حال میں نے دیکھا اس کے بعد میں کسی کی موت پر رشک نہیں کرتی تھی کہ اس پر موت آسان ہو گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چہرے سے پسینہ صاف کرتے اور فرماتے تھے موت میں کتنی سختی ہے۔ اے اللہ رفیق اعلیٰ نصیب ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگوں میں شدید بے چینی پھیل گئی، کچھ لوگ کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور کچھ لوگ کہتے تھے کہ آپ کی وفات نہیں ہوئی اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود نہیں تھے، وہ اس دن حوالی مدینہ میں اپنی کسی بیوی کے پاس تھے۔ جب انہیں حادثہ کی خبر ملی تو تشریف لائے اور آپ کا چہرہ کھولا ور اس کو بوسہ دیا، اور کہا: ’’آپ زندگی اور موت دونوں ہی حالتوں میں کتنے پاکیزہ تھے۔‘‘ پھر مسجد کی طرف آئے تو دیکھا کہ لوگ منتشر ہو کر رو رہے ہیں ۔ آپ منبر پر تشریف لائے، آپ کو دیکھ کر سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے حمد و ثناء کے بعد فرمایا: ’’لوگو! جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو سنو! بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، اور جو اللہ کی بندگی کرتا تھا تو بے شک اللہ ہمیشہ زندہ رہے گا کبھی نہیں مرے گا۔‘‘ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَّسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَo﴾ (آل عمران: ۱۴۴) ’’اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول تھے۔ آپ سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں ۔ پس اگر آپ مر گئے یا شہید کر دیے گئے تو کیا تم اُلٹے پاؤں لوٹ جاؤ گے اور جو