کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 197
آیت یہ نازل ہوئی تھی: ﴿وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۲۸۱) ’’اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کے پاس پیش کیے جاؤ گے پھر ہر نفس کو اُس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اس کے نویں دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ ربیع الاول کی دو تاریخ تھی۔ اس وقت آپ کی عمر ٹرسٹھ سال تھی، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اُن کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی۔ رضی اللہ عنہم ، اور یہ عمر عام طور پر مرنے کی عمر ہوتی ہے، اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَo کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۳۵) ’’اور ہم نے آپ سے پہلے کسی آدمی کوبھی ہمیشہ زندہ نہیں رکھا۔ اگر آپ مر گئے تو کیا وہ لوگ ہمیشہ رہیں گے۔ ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور ہم تمہیں شر اور خیر کے ساتھ آزمائیں گے، اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں تین باتوں کی وصیت فرمائی، فرمایا: اسامہ کے لشکر کو بھیج دینا اور وفد کو جس طرح میں بھیجتا تھا، بھیجتے رہنا، اور یہو و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری میں اپنی عورتوں کی باری مقرر کرتے تھے۔ لہٰذا کسی کو حکم دیتے کہ جس عورت کی باری ہوتی اس دن آپ کو اس کے پاس لے جاتے۔ محض عدل و مساوات کی شوق میں ، اور فرماتے تھے: میں کل کہاں رہوں گا، اس شوق میں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہوں ۔ جب آپ کی بیویوں کو معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس