کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 196
کفن دیتا، اور تمہاری جنازہ کی نماز پڑھتا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: گویا کہ میں آپ کی جگہ ہوں آپ کے بدلے اور آپ دلہن میں اپنی کسی عورت کی جگہ۔ پھر آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ ہائے میرا سر، اور درد مسلسل باقی رہا۔ آپ کے پاس آپ کی صاحبزادی فاطمہ آئیں ۔ آپ نے ان سے چپکے سے کچھ کہا تو وہ رونے لگیں ، پھر دوبارہ کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگیں ۔ اُن سے اس بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھ سے چپکے سے کہا اور میں رونے لگی تو آپ نے اس وقت مجھ سے کہا تھا کہ میں اس مرض میں انتقال کرنے والا ہوں ، تم صبر کرنا اور اللہ سے ثواب حاصل کرنا۔ یہ سن کر میں رو پڑی، اور جب دوبارہ چپکے سے فرمایا تو ہنس پڑی، اس وقت آپ نے فرمایا تھا کہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم ہی مجھ سے ملنے والی ہو۔ اس پر میں ہنس پڑی۔ چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کی وفات کے چار ماہ بعد وفات پا گئیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس بیماری میں فرمایا کرتے تھے: ((اَلصَّلَاۃُ اَلصَّلَاۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔))[1] ’’نماز کا خیال رکھنا اور اپنی عورتوں کا خیال رکھنا۔‘‘ اور آپ سے کہا گیا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ، کیونکہ اللہ اور اُس کے رسول ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی کو چاہتے ہیں ، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اُٹھایا تو لوگوں کو صف بند نما زپڑھتے ہوئے دیکھا تو جماعت میں جا کر ان کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے بیقرار ہو گئے۔ چنانچہ سیّدنا علی اور جناب عباس رضی اللہ عنہما کو بلایا اور ان سے کہا کہ مجھ کو لے چلیں ۔ وہ لوگ آپ کو کسی طرح لے کر چلے۔ آپ پاؤں کے بل زمین پر تو چل رہے تھے لیکن بوجھ ان کے اوپر تھا، انہوں نے لے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا۔ آپ کو دیکھ کر لوگوں کو اتنی خوشی ہوئی کہ قریب تھا کہ نماز میں خلل نہ پڑ جائے۔ آپ نماز پڑھ کر گھر واپس آئے تو دوبارہ نکل کر نہ جا سکے، یہاں تک کہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آپ پر قرآن کی آخری
[1] ابن ماجہ، کتاب الجنائز: ۱۶۲۵۔