کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 195
کے قریب ہونے کا وقت آ گیا، لہٰذا آپ ہماری ملاقات کی تیاری کیجئے اور حمد باری کی تسبیح پڑھیے اور اس سے استغفار کیجئے وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ چنانچہ اس سورہ کے نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے بیٹھتے: ((سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ۔)) پڑھا کرتے تھے۔ جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو لوگوں کو خطبہ دیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا کی زیب و زینت کو چاہے پسند کرے اور چاہے تو اللہ کے پاس کی نعمتیں پسند کرے۔ اس بندے نے اللہ کے پاس کی نعمتوں کو پسند کیا۔‘‘ [1] اس خطبہ کے بعد سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معانقہ فرمایا، اور کہا: ’’ہم آپ پر اپنے ماں باپ کے ساتھ فدا ہیں۔‘‘ بعض صحابہ نے کہا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ پر ہمیں تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے متعلق فرما رہے ہیں کہ اللہ نے اس کو دنیا و آخرت کی نعمتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی اجازت دی، اس نے آخرت اختیار کی، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ پر اپنے ماں باپ کے ساتھ فدا ہیں ۔ آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ ظاہر ہے اس کا مطلب یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اختیار دیا جا رہا تھا کہ چاہیں تو دنیا کی زیب و زینت پسند کریں ۔ چاہے اللہ کے پاس کی نعمتیں ، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ آپ کو جاننے والے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، اور اس سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا، اور ہر سال جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ایک مرتبہ قرآن کا دَور کرتے تھے، اور اس سال دو مرتبہ کیا، اور صفر ۱۰ھ کے مہینہ کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو درد شروع ہوا، آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرے میں تشریف لائے اور وہ چٹائی پر لیٹی ہوئیں کہہ رہی تھیں ، ہائے سر کی تکلیف۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا، میں چاہتا ہوں کاش ایسا ہی ہوتا کہ میں اس وقت زندہ رہتا اور تم کو غسل اور
[1] مسلم، باب ما یقال فی الرکوع: ۱۱۱۵۔