کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 194
سمجھ کر لیا ہے، اور ان کی شرمگاہ کو کلمہ الٰہی کے ساتھ حلال کیا ہے۔ اُن پر تمہارا حق ہے کہ وہ تمہارے بچھونوں پر ان کو نہ بٹھائیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر اُن کو نہ آنے دیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو، اور تم پر ان کا حق ہے کہ اُن کو کھانا اور کپڑا دو، اور بے شک میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے کہ جب تک اس کو تم مضبوط پکڑے رہو گے، گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے اللہ کی کتاب، اور تم سے میری بابت سوال کیا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے۔ سب نے جواب دیا، ہم گواہی دیں گے بے شک آپ نے دین پہنچایا اور حق نبوت ادا کیا اور امت کے ساتھ خیر خواہی فرمائی۔ یہ سن کر آپ نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھایا اور تین بار فرمایا: ’’اے اللہ تو گواہ رہنا۔‘‘[1] ایام تشرق کے وسط میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُo وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًاo فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًاo﴾ (الفتح: ۱۔۳) ’’یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ چکی اور آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں تو آپ اپنے رب کی حمد کیجئے اور اس سے مغفرت چاہیے، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔‘‘ جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر کی ہے کہ اس سورہ میں آپ کی موت کے قریب ہونے کی خبر دی گئی ہے، فرمایا: ’’اے محمد! جب آپ کی مدد اور فتح آ چکی ہے اور آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ اللہ کے دین میں برضا و رغبت فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ موت
[1] مسلم ، باب تغلیظ تخریج الدماء: ۱۶۷۹۔