کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 193
لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ: ۳) ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا او راپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام سے راضی ہو گیا۔‘‘ اب اس کے پورے ہونے کے بعد اس کے کم ہونے کی باری ہے: اذا تم شیٔ بد أنقصہ توقع ذوال اَمر اذا قیل تم ’’جب کوئی چیز پوری ہو جاتی ہے تو اس کا نقص ظاہر ہونے لگتا ہے، جب کسی چیز کے لیے تم سے کہا جائے کہ وہ پوری ہو گئی تو سمجھو اس کے زوال کا وقت آ گیا۔‘‘ عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں لوگوں سے اشارہ فرما دیا تھا کہ آپ کی موت اب قریب ہے۔ اسی لیے آپ نے خطبہ میں فرمایا: ’’شاید میں اس سال کے بعد آپ لوگوں سے نہ مل سکوں ، لہٰذا میرے بعد کافر ہو کر ایک دوسرے کی گردن مت مارنے لگنا۔‘‘ اسی لیے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں لوگوں کو الوداع فرمایا اور ایک عظیم خطبہ دیا جس میں فرمایا: ’’بے شک تمہارا خون اور تمہارا مال تم پر اسی طرح حرام ہے جس طرح آج کا یہ دن اور یہ شہر حرمت والا ہے اور یاد رکھو، جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں کے نیچے دبا دی گئی ہے، جاہلیت کا خون بھی ختم کر دیا گیا ہے اور اپنے خونوں میں سے پہلے خون میں ربیعہ بن حارث کا معاف کرتا ہوں جو قبیلہ بنو سعد میں رضاعت کی مدت گزار رہے تھے، اور ہذیل کے قبیلہ والوں نے ان کو قتل کر دیا تھا، اور جاہلیت کا سود بھی معاف کر دیا گیا اور پہلا سود جس کو میں معاف کرتا ہوں وہ عباس ابن عبدالمطلب کا سود ہے، وہ سب کا سب معاف ہے۔‘‘ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کیونکہ تم نے اُن کو اللہ کی امانت