کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 192
ہے، اس طرح اپنے رب سے ملنے کی محبت میں موت سے بھی محبت کرتا ہے، اور جو شخص اللہ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، اللہ بھی اس کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، اور جو شخص اللہ سے ملنے کو نا پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنے کو نا پسند کرتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم میں سے ہر شخص موت کو نا پسند کرتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بات ایسی نہیں ہے بلکہ انسان کا تعلق جب دنیا سے ختم ہونے لگتا ہے اور وہ آخرت کی طرف جانے لگتا ہے، تو اگر وہ صاحب خیر رہا ہے تو اس کو خیر کی بشارت دی جاتی ہے، اس وقت وہ اللہ کی ملاقات کو چاہنے لگتا ہے تو اللہ بھی اس کی ملاقات کو چاہنے لگتا ہے۔ اگر وہ بدکار تھا تو اس کو برائی کی خبر دی جاتی ہے، اس وقت وہ اللہ کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے، اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال تک کوئی وحی نہیں کی گئی۔ چالیس سال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حق آیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍo اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ (العلق:۱۔۵) ’’اپنے رب کے نام سے پڑھو، جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو بندھے ہوئے خون سے پیدا کیا پڑھو اور تمہارا رب بڑی عزت والاہے جس نے قلم سے سکھایا، انسان کو وہ چیز سکھائی جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ اس کے بعد وحی کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ ہجرت کا جب دسواں سال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے قریب ہونے کی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے کوچ کر کے اللہ کی ملاقات کا وقت معلوم ہونے لگا، اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حج کرایا اور جب آپ عرفات میں کھڑے تھے تو یہ آیت نازل فرمائی: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ