کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 191
﴿اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌ﴾ (التوبۃ: ۳۸) ’’کیا تم آخرت کے مقابلہ میں دنیا ک زندگی پر مطمئن ہو چکے ہو، لیکن آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی بہت تھوڑی ہے۔‘‘ دنیا کا سب سے بڑا عیب اس کا فنا ہونا اور حوادث کا شکار ہونا ہے، جو اس کے زوال کی سب سے بھاری دلیل ہے۔ صحت بیماری سے بدلی رہتی ہے اور نعمت سختی سے اور زندگی موت سے اور آبادی ویرانے سے اور لوگوں کا ملاپ احباب کی جدائی سے اور جو کچھ مٹی کے اوپر ہے وہ سب مٹی ہونے والا ہے۔ موت جس سے لوگ گھبراتے ہیں اور جس سے دنیا والوں کی آشائش و نعمت کو کر کرا کر رکھا ہے، وہ موت ہمیشہ کے لے فنا نہیں ، بلکہ موت نام ہے ایک گھر سے گھر کی طرف منتقل ہو جانے کا، تاکہ بروں کو برائی کی سزا اور اچھوں کو اچھائی کی جزا دی جا سکے۔ لہٰذا موت کے ہول سے وہی شخص گھبراتا ہے جس نے آخرت کے لیے کچھ جمع نہیں کیا ہے، ایسے شخص پر مرنے کے وقت موت کی سختی اور فنا کی حسرت اور مستقبل کا خوف سب اکٹھا ہو جاتا ہے، اس وقت وہ بہت بچاتا ہے، لیکن یہ ندامت بیکار ہے۔ حسب فرمان الٰہی: ﴿یَالَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْo فَیَوْمَئِذٍ لّاَ یُعَذِّبُ عَذَابَہٗ اَحَدٌo وَلَا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗ اَحَدٌo﴾ (الفجر: ۲۴۔۶۲) ’’اے کاش! میں نے آخرت کی زندگی کے لیے کچھ کیا ہوتا، اس دن اللہ جیسا نہ کوئی عذاب دے سکتا اور نہ اس کے جیسا کوئی پکڑ سکتا ہے۔‘‘ لوگوں کی حیثیت دنیا میں مسافروں جیسی ہے جن کو جاننا چاہیے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک دوسرا گھر ہے، وہ اسی کے گھر کے لیے کام کرتے ہیں ، اور وہیں جانے کی تیاری میں سب کچھ کر رہے ہیں ، جو شخص کوئی چیز پہلے بھیج دیتا ہے، وہاں جانے کے لیے وہ تیار رہتا