کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 190
’’اے اللہ میری قبر کو استھان نہ بنا دینا جس کو پوجا جائے۔‘‘ جہاں لوگ آ کر گڑ گڑائیں اور سوال کریں اور اس طرح کہیں ، اے محمد میری شفاعت فرمائیے وغیرہ۔ جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: ہم شفاعت چاہتے ہیں اللہ کے ذریعے سے آپ سے اور آپ کے ذریعے اللہ سے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل سبحان اللہ، سبحان اللہ کہتے رہے، جس سے صحابہ کے چہروں میں نا گواری کے آثار نمودار ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ کے ذریعہ کسی مخلوق کی شفاعت طلب نہیں کی جاتی ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’غلو سے بچو، غلو ہی نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کیا ہے۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’مجھے میرے مرتبہ سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا، میں ایک بندہ ہوں مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو، اور ’’اطراء‘‘ کہتے ہیں مدح وثنا میں حد سے آگے بڑھ جانا۔‘‘ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ فرمائی اور اُمت کے ساتھ خیر خواہی کی اور لوگوں کو ڈرایا، دھمکایا۔ ۳۷۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور اس کے متعلق احکام کا بیان: حمد و ثناء کے بعد معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے دنیا کے لیے فنا اور آخرت کے لیے بقا لکھ دی ہے جس کے لیے فنا مقرر ہے وہ باقی نہیں رہ سکتی۔ اے میری قوم کے لوگو! یہ دنیا چند روزہ سامان ہے اور آخرت ہی پائیدار جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو متاع کہا، اور متاع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے آدمی تھوڑی دیر کے لیے فائدہ اٹھاتا ہے، پھر وہ ختم ہو جاتا ہے اور متاع، متاع مسافر سے بنا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: