کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 19
تھے، جیساکہ شاعر نے کہا: بلاد بہا نیطت علٰی تمائمی و اول ارض مس جلدی ترابہا ’’وہ شہر جس میں مجھ پر تعویذ لٹکایا گیا او روہ پہلی سر زمین جس کی مٹی کو میرے جسم نے چھوا۔‘‘ دھیرے دھیرے یہی شرکیہ تصور سادہ اور عقل و فہم کے کمزور عوام تک سرایت کر گیا، اسلام نے اس کو باطل قرار دیا۔ شرکیہ اعمال میں اس کا شمار کیا، اس لیے اس تعویذکا اس کی مختلف شکلوں میں لٹکایا دراصل دل کو اللہ سے پھیر کر اس لٹکی ہوئی تعویذپر جما دینا ہے اس طرح کہ اسی تعویذ پر بچہ جوان اور بڑا، بڑھاپے کی منزل طے کرتا ہے اور وہ مرتا بھی اسی حالت میں ہے کہ تعویذاس کے جسم سے لگ رہتی ہے۔ اس وقت یہ اس کے لیے کتنی خطرناک اور ضرر رساں ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ مسند احمد میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا ایک کڑا دیکھا پوچھا: ’’یہ کیا؟‘‘ کہا: ’’واہنہ‘‘ (درد دور کرنے کے لیے) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکال کر پھینک دو یہ تمہارے وہن یعنی کمزوری کو اور بڑھائے گا اور اگر تم اس کو پہنے ہوئے مر گئے تو کبھی نجات نہ پاؤ گے۔‘‘[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیتل کے کڑے پہننے سے اس لیے منع فرمایا کہ اس کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ کڑا درد سے اس کو بچائے گا، حالانکہ یہ کڑا دوا نہیں بلکہ خود بیماری ہے۔ مسند احمد میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس نے تعویذ لٹکایا اور اللہ اس کو پورا نہ کرے‘‘[2]اور دوسری روایت ہے ’’جس نے تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا۔‘‘[3]جو شخص مرض وتکلیف سے محفوظ رہنے اور جنوں اور انسانوں کی
[1] مسند احمد: ۴/۴۵۶، ح: ۲۰۱۵۰۔ [2] مسند احمد: ۳/۱۱۸، ح: ۱۲۲۰۵۔ [3] مسند احمد: ۴/ ۱۵۶، ح: ۱۷۴۵۸۔