کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 186
تمام عبادات شرعیہ کی بنیاد توفیق اور اتباع پر ہے۔ استحسان اور ابتداع پر نہیں ۔ لہٰذا جس عبادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے نہیں کیا اس کو تم بھی مت کرو۔ اس لیے کہ پہلوؤں نے عبادات دینیہ کے بارے میں بعد والوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا ، اور بدعت حسنہ عادات میں ہوتی ہیں عبادات میں نہیں ۔ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ میلاد النبی کا اہتمام کرتے ہیں اور اس مجلس پر کافی خرچ کرتے ہیں ان کا مقصد رسول کی محبت ہے اور وہ اور اس محفل کے ذریعہ محبت و رسول کی تعظیم کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن یہ بات جان لینا چاہیے کہ اچھا مقصد بھی فعل بدعت کو جائز نہیں کرتا، اور فطری محبت دینی محبت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دیکھو ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، ان کو آپ سے بڑی محبت تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی گود ہی میں پلے تھے اور انہوں نے آپ کی زبردست حمایت کی اور مدد بھی کی تھی بلکہ آپ کی نبوت کی سچائی کی گواہی بھی دیتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت نہیں کی، اور نہ آپ کی نہی سے بچے، اور نہ آپ کے دین کی پیروی کی تو کفر پر ان کی موت آئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کر دیا گیا کہ آپ ان کے لیے استغفار کی دعا نہیں کر سکتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اسلام نہ لانے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تغریت اور تسلی کے لیے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَo﴾ (القصص: ۵۶) ’’آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہی ہدایت لانے والوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ جب لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت محبت نازل فرمائی: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ﴾ (آل عمران: ۳۱)