کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 184
کا جلسہ ثابت نہیں ، اگر یہ کوئی اچھی بات ہوتی ہمارے اسلاف ضرور اس کی طرف سبقت کیے ہوتے۔ ۳۴۔میلاد کی بدعت سب سے پہلے مصر کے فاطمیوں نے شروع کی: ’’اَلْاِبْدَاعُ فِیْ مَضَارِ الْاِبْتِدَاعِ‘‘ کے مصنف نے لکھا ہے کہ میلاد کی بدعت سب سے پہلے فاطمیوں نے شروع کی۔ انہوں نے عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ حضرت مسیح کی پیدائش کے دن کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور اسے عید کی طرح خوشی کا دن مناتے ہیں ، جس میں کاروبار اور بازاد بند رکھتے ہیں ۔ ان کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی میلاد الرسول کی بدعت شروع کی۔ یعنی ایک بدعت کے مقابلہ میں دوسری بدعت اور ایک منکر کے مقابلہ میں دوسری برائی کو پید اکیا، جس کا گناہ اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کے گناہ کے برابر ان کو ملتا رہے گا۔ کیونکہ میلاد النبی کی تعظیم نہ اسلام کا کوئی جز ہے نہ سلف صالح کا کوئی عمل، بلکہ وہ نصاریٰ کی تقلید اور اُن کے ساتھ مشابہت ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کچھ نام نہاد علماء میلاد النبی کی لوگوں سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کو سمجھاتے ہیں کہ یہ ایک بدعت حسنہ ہے جس سے عوام کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت پیدا ہوتی ہے۔ ساتھ ہی روایت احباب اس مجلس میں جمع ہو جاتے ہیں اور کھانا بھی کھلایا جاتا ہے، لوگ ایک دوسرے کو سلام بھی کرتے ہیں ۔ ان چیزوں سے یہ لوگ عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ میلاد بدعت حسنہ ہے۔ لیکن یہ قول سراسر باطل ہے۔ اس لیے کہ شریعت میں بدعت حسنہ ہے ہی نہیں ۔ بلکہ ہر بدعت ضلالت ہے اور ضلالت کا نجام جہنم ہے۔ میلاد کی رسم مسلسل ہر سال پابندی سے انجام دینے کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بیٹھ گیا ہے کہ یہ بڑی افضل اور کوئی فرضی عبادت ہے۔ اسی لیے جب اس کو مٹایا جاتا ہے یا اس سے دور کیا جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو ایک سنت مٹائی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ لوگ میلاد کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کہتے ہیں جس سے عوام اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ یہ علماء ان کو سمجھاتے ہیں کہ جو شخص محفل میلاد میں شریک ہوگا اس کے کاروبار میں اتنا فائدہ ہو