کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 183
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتح اور وسعت رزق کی پہلے ہی سے پیشین گوئی فرما دی تھی۔ جیسا کہ بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان کے پاس تشریف فرما تھے کہ آپ کو ہنسی آئی۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں ؟ فرمایا: میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ پیش کیے گئے جو سمندر کے کنارے تک سوار ہوں گے، شہنشاہوں کی حیثیت سے۔ ام حرام نے کہا اللہ سے دعا فرمائیے کہ مجھے بھی ان میں شامل کر دے۔ آپ نے فرمایا: تم ان میں رہو گی۔ چنانچہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت کے ساتھ مجاہدہ بن کر نکلیں ، راستہ میں سواری سے گر کر شہید ہو گئیں ۔ [1] حاصل کلام یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی میلاد کی عظمت کے لیے ان محفلوں کے انعقاد اور اس میں اجتماع کرنے، اور تقریر و نظم خوانی کو مشروع نہیں فرمایا ہے بلکہ اس کے برعکس آپ کی کراہیت کا ثبوت ملتا ہے، جیسا کہ بخاری میں یہ ارشاد موجود ہے: ((لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارٰی ابْنَ مَرْیَمَ، اِنَّمَا اَنَا عَبْدُہٗ فَقُوْلُوْا، عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہٗ۔))[2] ’’مجھ کو میرے مقام سے مت بڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا، میں تو بندہ ہوں ، مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘ ’’اطراء‘‘ کہتے ہیں تعریف میں مبالغہ آرائی کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ((اِیَّاکُمْ وَ الْغُلُوَّ فَاِنَّمَا اَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ۔)) [3] ’’اپنے کو غلو سے بچاؤ، غلو ہی نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کیا ہے۔‘‘ اسی طرح خلفاء راشدین اور صحابہ و تابعین اور ائمہ اربعہ امام احمد، شافعی، مالک اور ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کی طرف سے میلاد الرسول کی تعظیم اور اس دن کا اجتماع، نیز شب معراج
[1] مسلم، باب الغزو فی البعر: ۱۹۱۲۔ [2] بخاری، واذکر فی الکتاب، ح: ۳۴۴۵۔ [3] ابن ماجہ، کتاب المناسک: ۳۰۲۹۔ النسائی، ح: ۳۰۵۷۔