کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 182
اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ پہلے وہ دیہاتوں اور وادیوں میں چرواہے تھے، اب ملکوں کے بادشاہ بن گئے۔ پہلے ان کو اپنی ستر پوشی، اور بھوک کی آگ کا بھجانا ہی بھاری تھا جیسا کہ مسلم بن عتبہ بن غزوان کا بیان ہے کہ میں اس دن کو یاد کرتا ہوں جب ہم سات اصحاب نبی اس حالت میں تھے کہ ہمارے پاس درخت کے پتوں کے سوا کھانے کو کچھ نہیں تھا، جس کے کھانے سے ہماری انتڑیوں میں زخم پڑ گئے تھے، اور میں نے ایک چادر کو دو حصے کر کے سعد بن ابی وقاص کے درمیان تقسیم کر لی۔ آدھی میں نے پہنی اور آدھی سعد نے، اور آج یہ عالم ہے کہ وہ ایک شہر کے گورنر ہیں میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ خود کو دل میں بڑا سمجھوں اور عنداللہ چھوٹا رہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کے ساتھ ساتھ ان مصائب اور سختیوں کا بھی ذکر فرمایا، جس میں وہ مبتلا تھے، جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَ اذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰیکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ (الانفال: ۲۶) ’’اور اس وقت کو یاد کرو جب تم تھوڑے زمین میں کمزور تھے، ڈرتے تھے کہ کہیں تم کو اچک نہ لیں ، تو اللہ نے تم کو ٹھکانا دیا اور اپنی مدد سے تائید کی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘ قتادہ کا بیان ہے کہ اسلام اور بعثت محمد سے قبل عربوں کا یہ حال تھا کہ وہ لوگوں میں سب سے ذلیل تھے، سب سے بدتر زندگی گزارتے تھے، ان کو کھلایا جاتا تھا خود نہیں کھا سکتے تھے اور ہم روئے زمین پر خود کو سب سے بدترین سمجھتے تھے کہ اللہ نے اسلام کی نعمت سے ہمیں نوازا اور شہروں میں اس کی جڑیں مضبوط کیں ۔ اس کے ذریعے سے رزق کو وسیع کیا اور لوگوں پر ہمیں بادشاہت عطا کی۔ اسلام ہی کی وہ برکت ہے جس کے ذریعے سے اللہ نے ہماری یہ موجودہ حالت بنائی، اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرو۔ کیونکہ تمہارا رب بڑا منعم ہے اور شکر کو پسند کرتا ہے۔