کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 180
کَفَاکَ بِالْاُمِّیِّ مُعْجِزَۃً ’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لیے یہی معجزہ کافی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اُمیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت اور عصمت کے لیے پسند کیا تاکہ آپ کے پاک قرآن کے بارے میں جھوٹے شکوک و شبہات نہ پیدا کیے جا سکیں ۔ یعنی لوگ کہنا شروع کریں کہ آپ نے یہ قرآن فلاں سے سیکھا یا فلاں کتاب سے نقل کیا، اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَo بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَo﴾ (العنکبوت: ۴۸۔۴۹) ’’اور آپ اس کتاب کے نازل ہونے سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے، اور نہ اپنے ہاتھوں سے لکھ سکتے تھے ورنہ باطل پرست شک کرتے۔ بلکہ یہ قرآن وہ آیات بینات ہے علم والوں کے سینوں میں اور ہماری آیات کا انکار صرف ظالم ہی کرتے ہیں ۔‘‘ ﴿یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہِ ﴾ کا مطلب یہ ہو اکہ آپ قرآن کی آیت لوگوں کو پڑھ کر سناتے اور اس کی تفسیر بیان کرتے، اور لوگ اپنے اعتراضات آپ سے پوچھتے۔ عبداللہ ابن مسعود کا بیان ہے کہ ہم دس آیتیں سیکھ لیتے تو جب تک ہم ان کے معانی نہ سمجھ لیتے اور اُن پر عمل نہیں کرتے آگے نہ بڑھتے تھے، اور تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ قرآن کی تعلیمات اور فضائل و مکارم کا لوگوں کو پابند بناتے اور برے اور رذیل اخلاق سے لوگوں کو بچاتے اس طرح لوگوں کے نفوس کو صاف اور پاک کرتے، اور ساری دنیا میں فخر انسانی کو عام کرتے۔ سچ فرمایا اللہ نے جس نے نفس کو پاک کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اس کو ملوث کیا وہ ناکام رہا، اور کتاب و حکمت کی تعلیم کا مطلب قرآن اور سنت کی تعلیم ہے۔ یعنی اسلام اور بعثت محمد سے پہلے عرب بڑے شر اور نحوست اور اندھی گمراہی میں مبتلا تھے۔ ایک دوسرے کو قتل کیا