کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 176
تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌo یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَہْدِیْہِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo﴾ (المائدہ: ۱۵) ’’اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آ چکا جو تم سے وہ اکثر باتیں بیان کر رہا ہے جس کو تم کتاب میں سے چھپاتے تھے اور کثرت سے معاف کرتا ہے۔ بے شک تمہارے رب کے پاس اللہ کی طرف سے آ چکا نور اور وہ کھلی ہوئی کتاب جس کے ذریعہ اللہ اُن کو ہدایت دیتا ہے جو اس کی رضا پیروی کرتے ہیں ، سیدھی راہ کی طرف اور ان کو اللہ کے حکم سے ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روایت کے مطابق ۸ ربیع الاول اور دوسری روایت کے مطابق ۱۲ ربیع الاول کو پیدا ہوئے، اور چالیس سال تک زندہ رہے اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی نہیں ہوئی۔ رہی یہ روایت جو میلادی قصہ گو بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں پیدا ہوئے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک نور نکلا جو ایسا تھا اور ویساتھا۔ یا یہ کہ حضرت آدم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے پیدا کیے گئے اور تمام خشکی اور تری کے درندوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل کی ایک دوسرے کو بشارت دی، اور حضرت مریم علیہا السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت موجود تھیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محفل میلاد میں حاضر ہوتے اور حاضرین محفل کو پہچانتے ہیں ۔ یہ اور اس طرح کی تمام باتیں من گھڑت اور بے ثبوت ہیں ‘ جن کا کوئی اعتبار نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے حجت پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا: ﴿فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ (یونس: ۱۶) ’’اور بے شک میں تم میں اس سے پہلے ایک لمبی عمر تک ٹھہرا رہا۔ کیا تم سوچتے نہیں ہو۔‘‘