کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 171
قوت اجتہاد اور تمام امور میں ان کی مہارت تامہ وصف و بیان سے باہر ہے، یہ غلام ہمیشہ ہی ان باتوں کا اعتراف کرتا رہتا ہے میرے دل میں ان کی قدر و منزلت اس بیان سے کہیں زیادہ ہے۔ اُن علمی اوصاف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو زہد و ورع، دیانت، حق کی نصرت اور اس کے لیے بے غرض جدو جہد عطا کی ہے، نیز اُن کا سلف صالحین کے طریقہ پر عمل اور اس کو پوری طرح اختیار کرنا، موجودہ دور تو کیا کسی زمانے میں بھی اس کی مثال پیش کرنی مشکل ہے۔‘‘ [1] ۳۲۔ابو حیان رحمہ اللہ کا بیان: ابو حیان، شیخ الاسلام سے بڑی محبت رکھتے تھے، ان کے فضل اور وسعت علم کا اعتراف کرتے تھے، ان اشعار میں انہوں نے شیخ کی تعریف کی ہے: لمّا أتانا تقی الدین لاخ لنا داع الی اللّٰہ فردا مالہ وزر حبر تسربل من دہرہ حبرا بحر تقاذف من امواجہ الدرر قام ابن تیمیۃ فی نصر شرعتنا مقام سیّد تیم اذ عصمت مضر فأظہر الحق اذ اٰثارہ اندر ست وأخمد الشر اذطارت لہٗ شرر ’’جب تقی الدین ہمارے پاس آئے تو ہم پر واضح ہوا کہ وہ داعی الی اللہ ہیں اور بے مثال فرد وہ عالم جس نے اپنے زمانے کو زینت بخشی، وہ سمندر جس کی موجوں سے موتی برآمد ہوئے، شریعت کی مدد میں ابن تیمیہ اس مقام پر کھڑے ہوئے جہاں مضر کی نافرمانی کے وقت سیّد بنو تمیم کھڑے تھے۔ انہوں نے حق کو
[1] درر کا منہ، ج:۱، ص: ۱۵۱۔