کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 170
ساتھ بات کرتے تو وہ سب کے لیے قابل قبول تھے، بڑے بڑے علماء ان کے علم کے سامنے جھکے ہوئے تھے، ان کی ندرت خطاب کے معترف تھے، وہ بحر بیکراں اور گنج گرانمایہ تھے۔ نماز اور روزہ کے بے حد پابند، شریعت کی بڑی تعظیم فرماتے تھے، کوئی بات نا سمجھی کی نہیں فرماتے تھے، کیونکہ بے حد چالاک وزیرک تھے، ان پر قلت علم کا شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ علم کا بحر زخار تھے۔ دین کے ساتھ کھیل نہیں کرتے تھے، اور کسی مسئلے میں محض من مانی بلا دلیل فتویٰ نہیں دیتے تھے، بلکہ قرآن و حدیث اور قیاس کے ساتھ پورے دلائل مہیا کرتے اور ائمہ متقدمین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر چیز دلیل و برہان سے تلاش کرتے تھے، اس لیے ان کی اجتہادی غلطیوں پر اُن کو اکہرا اجر ملے گا اور درست و صحیح اجتہاد پر دوہرا۔‘‘ [1] اُن کے ہم عصر حاسدین جو خود کو آپ سے عمر میں اور مرتبے میں بڑا سمجھتے تھے، آپ سے بہت حسد رکھتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ آپ کے علم اور تعلیم کے نور کو زبردستی مٹا دیں ، اور اس حاکم وقت سے چغلی کھا کر آپ کے نور علم کو بھجا دیں ، جس نے آپ کو بار بار جیل میں ڈالا، اور ’’سبکی‘‘ نے آپ کے فتویٰ ’’ایک مجلس کی تین طلاق‘‘ کے ایک رجعی ہونے پر آپ کے ساتھ بڑی سخت کلامی کی۔ اسی طرح آپ نے طلاق کی قسم کو قسم کفارہ قرار دیا جس سے طلاق واقع نہیں ہوتی ’’سبکی‘‘ نے ان مسائل کے رد میں آپ کے ساتھ بڑی سختی کا برتاؤ کیا۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے جب ’’سبکی‘‘ سے شکایت کی کہ انہوں نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر لعن طعن کیوں کیا، تو انہوں نے جواب میں لکھا: ’’شیخ تقی الدین کے بارے میں آنجناب نے جو کچھ لکھا ہے اس کی بابت عرض ہے کہ یہ غلام ان کی عظیم المرتبت شخصیت، علمی گہرائی اور علوم نقلیہ و عقلیہ میں ان کی بے پایاں وسعت کا اعتراف کرتا ہے۔ اُن کی حد سے بڑھی ہوئی سمجھ بوجھ،
[1] انتہیٰ، ج: ۱، ص: ۱۵۰۔