کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 166
نگرانی کا ادارہ ہے جو بدعات و منکرات سے روکے، وہاں لازماً باطل نظریات اور دین سے منحرف کرنے والی بدعات، اور بھانت بھانت کے مذاہب فکر پیدا ہو جاتے ہیں ، ان بدعات کی طرف سے تغافل و سکوت ہی ان کے پھلنے پھولنے کا سبب ہے، اور پرہیز علاج سے بہتر ہے، اور کسی چیز کا روکنا اس کے مٹانے سے زیادہ آسان ہے۔ بدعات و منکرات کا اگر کھل کر مقابلہ کیا جائے تو اس کا پھیلاؤ رک سکتا ہے اور اس کے حامیوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ قرآن سے زیادہ حاکم و سلطان سے کام لیتا ہے، جیسا کہ اس کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضُہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ﴾ (البقرۃ: ۲۵۱) ’’اگر اللہ بعض کو بعض سے دفع نہ کرے تو زمین فساد سے بھر جائے۔‘‘ ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ﴾ (التوبۃ: ۷۱) ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ، ایسوں ہی پر اللہ رحم کرے گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منکر اور مخالف اسلام باتوں کو دیکھ کر چپ رہنے یا اُن کے کرنے والوں کو روکنے کی ایک مثال بیان کی ہے، جیسا کہ بخاری میں ارشاد نبوی ہے کہ: ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ حدود اللہ کو قائم کرنے والے اور منکرات کا ارتکاب کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ ایک جہاز پر سوار ہوں کچھ تو عرشے پر ہوں اور کچھ نیچے ڈیک کے اندر ہوں ، نیچے والے جہاز کی سطح میں سوراخ کر کے پانی لینا چاہتے ہیں ، اگر اوپر والوں نے آ کر