کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 165
روز قربانی چھوڑ دی تاکہ لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ قربانی واجب ہے۔ جیسا کہ الاعتصام میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ ان محفلوں میں حاضری ترک کر دی جائے خواہ وہ تمام قبیح باتوں سے مبرا اور اس میں ہر طرح کے محاسن شامل ہی کیوں نہ ہوں تاکہ عوام یہ نہ سمجھ سکیں کہ یہ ایسا کام ہے جس کا نہ کرنے والا گنہگار ہوتا ہے، یا چھوڑنے والا کافر جیسا کہ سوال میں بعض علوی جاہل بدعتیوں نے ذکر کیا ہے، لیکن جب حقیقتاً وہ بدعات اور دوسرے مفاسد پر مشتمل ہو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، اقوال، افعال کے بارے میں جھوٹی باتوں کا ذکر جو عام طور پر اکثر میلادی قصوں میں موجود ہے، جن کا ان محفلوں میں گانا معمول بن گیا ہے، تب تو ان محفلوں میں شریک ہونا سخت گناہ ہے۔ ‘‘ ۲۹۔ابن حجر الہیثمی رحمہ اللہ کا فتویٰ: اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ولادت کے وقت قیام کرنا، اور اس کے متعلق کچھ اشعار اور گانے گانا وغیرہ بھی اسی قسم کی بدعت ہے، اس کی تصریح فقیہ ابن حجر مکی شافعی نے کی ہے جس کی کتابوں پر علوی اپنے دین کے بارے میں بڑا اعتماد رکھتے ہیں ، ابن حجر نے آیت ﴿اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ﴾ کی قرأت کے وقت قیام کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’اکثر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے وضع حمل کے ذکر کے وقت قیام کرتے ہیں جو سراسر بدعت ہے، اس بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں اور عوام ایسا محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے خیال سے کرتے ہیں ۔‘‘ مذکورہ بالا بیانات علماء اسلام کے اقوال کا خلاصہ ہیں کہ ذکر میلاد کے لیے محفل کا انعقاد بدعت ہے، جس سے دوسری بدعت پیدا ہوتی ہے، جیسے بدعت محفل نعمت کیونکہ بدعت کا یہ خاصہ ہے کہ اس سے دوسری بدعات پیدا ہوتی ہیں ۔ جن شہروں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہتمام نہیں اور نہ ہی وہاں کوئی دینی