کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 164
بدعت حسنہ ہوگا، ایسا نہیں کرے گا تو بدعت حسنہ نہیں ہوگا۔‘‘ اس قول پر ہمیں اعتراض ہے۔ محاسن اعمال سے مراد ’’قرآن کی تلاوت، سیرت نبوی کا بیان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ابتدائی حالات ولادت، تربیت، بعثت اور صدقات وغیرہ ہیں جو سب کے سب مشروع ہیں ، ان میں سے کسی کو بھی بدعت نہیں کہا جا سکتا۔ میلاد میں جو چیز بدعت ہے وہ اس کی مخصوص ہیئت کے ساتھ محفل منعقد کرنا، جس کا خاص وقت اور موسم ہے اور اس کو شعائر اسلام میں سے سمجھنا، جو شارع کی دلیل کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتے، نیز جہلاء اور عوام کا اس رسم کو شریعت کے اعمال اور کار ثواب میں شامل سمجھنا، ان قیود کے ساتھ یہ بدعت سیئہ ہے اور اللہ کے دین میں ایک جرم کے برابر ہے، دین میں ایک اضافہ ہے، جس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی، اللہ پر افتراء ہے، علم کے بغیر دین کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت ہے، اور اس کی قباحت کا کیا کہنا جب اس جیسی بدعت سیئہ کے تارک کو جاہل عوام کافر کہیں ۔ جیسے معلوم ہوتا ہے کہ میلاد دین کے ضروری قواعد معلومہ میں سے ہے، ایسی صورت حال میں جب کہ ان جاہلوں کے نزدیک اس کی یہ اہمیت ہو گئی ہے، اسے بدترین بدعت کہنا ہی ضروری ہوگا، کیونکہ اس کے کفر ہونے کے دلائل پوری طرح پائے جاتے ہیں اور اس لیے بھی کہ دین کی قطعی ضروریات اور شعائر میں کسی قسم کی زیادتی کرنا ایسا ہی ہے جیسے دین کی بنیادوں میں سے کوئی چیز کم کر دی گئی ہو، اور یہ دونوں باتیں اس دین سے خارج ہو جاتی ہیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے تھے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ (المائدۃ: ۳) ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کر دیا۔‘‘ یہ بدعت ایک ظاہری قانون ہے جو دین کے مکمل ہونے کے مخالف ہے۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’’معاذ اللہ‘‘ دور اول کے مسلمانوں کا دین ناقص تھا یا وہ کافر تھے۔ روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابو بکر اور عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے عیدالاضحی کے