کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 162
لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تراویح متفرق طور پر پڑھا کرتے تھے ایک شخص دوسرے کے ساتھ مل کر کبھی ایک دو آدمیوں کے ساتھ، کبھی ایک آدمی چند آدمیوں کو پڑھایا کرتے تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پورے زمانے میں ایسا ہی ہوتا رہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے فرمایا: ’’اگر میں سب کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دیتا تو اچھا تھا‘‘ چنانچہ ان کو حضرت ابی بن کعب کے پیچھے جمع کر دیا اور عورتوں کو تمیم داری کے پیچھے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اس رات لوگوں کو آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھائے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا۔[1] الغرض تراویح وہ سنت ہے جس کا مسنون ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور اقرار سے ثابت ہے، اس لیے اس کو بدعت حسنہ کہنا جائز نہیں ، کیونکہ یہ ’’سنت حسنہ‘‘ ہے اور بدعت کی ہر قسم ’’سیئہ‘‘ ہے۔ لہٰذا تراویح کو میلاد النبی کی بدعت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کو تو ہر شہر اور ہر زمانے میں علماء روکتے رہے اور اس میں شرکت سے منع کرتے رہے اور اس کے وجود کا انکار کرتے رہے۔ ۲۶۔محفل میلاد کے بدعت ہونے کی بابت علمائے اسلام کے فتاوے: جو محفل میلاد کے انکار کرنے میں ہم پر شدت کا الزام لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ بدعت حسنہ ہے اور علماء نجدیا بالفاظ دیگر ’’وہابی علماء‘‘ ہی اس کی مخالفت میں مبالغہ کرتے ہیں ، تو ہم یہاں دوسرے شہروں کے محقق علماء اہل سنت کے اقوال بھی پیش کرتے ہیں ، جنہوں نے اس کو بدعت لکھا ہے اور اس کے عدم مسنون کے قائل ہیں ۔ ۲۷۔ علامہ رشید رضا کا فتویٰ: سوال:… کیا کسی شخص کے لیے محفل میلاد النبی میں حاضر ہونا جائز ہے؟ جو شخص حاضری نہ دے تو کیا وہ کافر ہے؟ اور میلاد خوانی کے درمیان ’’مرحبا یا نبی‘‘ سن کر قیام کرنا کفر ہے؟
[1] تراویح کی آٹھ رکعت مسنون کے یقین ہونے کی حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ثابت ہے اسی پر اکتفاء کرنا اولیٰ ہے۔ (مترجم)