کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 161
خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی شب مسجد میں تشریف نہیں لائے تھے۔ اس لیے نہیں کہ جماعت سے تراویح کا پڑھنا جائز نہ تھا یا بدعت تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے فرضیت کا خوف جاتا رہا اور ہمیشہ کے لیے اس کا استحباب باقی رہ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس استحباب کی طرف اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے: ’’جو شخص امام کے ساتھ سلام پھیرنے تک نماز پڑھے تو اس کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔‘‘ اور اسی عموم میں یہ حدیث بھی شامل ہے: ((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَ مَا تَاَخَّرَ)) [1] ’’جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرے گا اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہوں گے۔‘‘ گناہوں کی مغفرت سے مراد چھوٹے گناہ ہیں ۔ اس نماز کا نام تراویح اس لیے رکھا گیا کہ لوگ اس میں قیام، رکوع اور سجدہ بہت لمبا کرتے ہیں جس کی وجہ سے تھک جاتے ہیں اور عصا وغیرہ پر ٹیک لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ، اور اس کا نام سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے بھی ماخوذ ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت ایسی پڑھتے تھے کہ اس کے طول و حسن کو پوچھو مت، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تھے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، پہلے چار رکعتیں ایسی پڑھتے تھے کہ ان کے طول و حسن کو پوچھو مت، پھر ایسی چار رکعت مزید پڑھتے تھے کہ ان کے طول و حسن کو پوچھو مت، پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔‘‘ [2]
[1] بخاری، باب صلاۃ التراویح، ح: ۲۰۰۹۔ [2] بخاری، باب قیام النبی باللیل، ح: ۱۱۴۷۔ مسلم: ۷۳۸۔