کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 160
ہوئے، صبح ہوئی اور لوگوں نے چرچا کیا تو تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب لوگوں نے تراویح پڑھی، لیکن چوتھی رات مسجد مصلّیوں کے ہجوم سے بھر گئی، اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لیے مسجد میں تشریف لائے اور فجر کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مخاطب ہوئے اور کلمہ شہادت کے بعد فرمایا، لوگو! اتنی بڑی تعداد میں آپ حضرات جمع ہونے سے میں بے خبر نہیں تھا، لیکن میں ڈرتا تھا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے تو تم اس کو ادا نہیں کر سکو گے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور لوگ اسی پر قائم رہے۔ [1] ابن شہاب زہری کا بیان ہے کہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت بھر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی ایام تک اسی طریقہ پر قائم رہے، اور بخاری میں عبدالرحمن بن عبدالقاری کا بیان ہے کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات میں مسجد کی طرف نکلا تو دیکھا مسجد میں لوگ منتشر اور متفرق تھے، ہر شخص اپنے لیے الگ نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں چند آدمی مل کر بھی۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ اگر میں ان لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دیتا تو اچھا ہوتا، چنانچہ ابی بن کعب تراویح کا امام مقرر کر کے سب کو ان کے ساتھ جمع کر دیا۔ دوسری رات کو بھی میں ان کے ساتھ مسجد میں گیا تو دیکھا لوگ اپنے قاری کے پیچھے تراویح پڑھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور جس وقت لوگ سوتے ہیں وہ وقت ان کی اس نماز کے وقت سے زیادہ افضل ہے۔‘‘ اُن کا مطلب تھا رات کے آخری حصہ میں جب عموماً لوگ سوتے رہتے ہیں اس وقت تراویح پڑھنا اول شب سے افضل ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز تراویح سنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مقرر فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل طور پر صحابہ کے ساتھ محض اس لیے یہ نماز نہیں پڑھی کہ کہیں فرض نہ کر دی جائے، تو لوگوں پر اس کی ادائیگی شاق ہوگی، محض لوگوں پر رحمت کے
[1] بخاری، باب صلاۃ التراویح، ح: ۲۰۱۲۔