کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 16
۲۔ پیغمبروں کو مبعوث فرمانے کی حکمت: انبیائے کرام کو مبعوث کرنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ صرف اللہ کو پکاریں اور اس کے سوا کسی کو نہ پکاریں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ وہ اپنی قوم کو حکم دیں کہ لوگ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، اور عبادت کی بہت سی قسمیں ہیں ، جیسے روزہ، نماز، زکوٰۃ اور تمام دینی احکامات اور دعا بھی عبادت کی ایک قسم ہے۔ صحیح مسلم میں سیّدناجابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلدُّعَائُ عِبَادَۃٌ۔)) ’’دعا عبادت ہے۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ﴾ (المؤمن: ۶۰) ’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے مجھ کو پکارو میں تمہاری پکار سنوں گا، جو لوگ میری عبادت یعنی مجھ کو پکارنے سے اکڑیں گے، جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘ جامع ترمذی کی روایت ہے: ((اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ۔)) [1] ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘ اور مغز ہر چیز کا خلاصہ ہوتا ہے، لہٰذا جب دعا عبادت ہے تو اس کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا شرک ہے، اس لیے جو لوگ حضرت علی یا کسی ولی کو یا شیخ عبدالقادر کو پکارتے ہیں ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ کی قبر کے پاس کھڑے ہوتے ہیں تو پکار کر کہتے ہیں : ’’اے محمد! اپنے رب کے پاس میری سفارش کیجئے اور میری فریاد سن لیجئے۔‘‘ تو یہ سب باتیں وہ شرک اکبر ہیں جن کو اللہ توبہ کیے بغیر معاف نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ اس بات کو ہر گز پسند نہیں کرتا کہ اس کی عبادت میں کسی کو بھی شریک کیا جائے خواہ وہ مقرب فرشتہ ہو یا فرستادہ نبی۔
[1] جمع ترمذی، باب فضل الدعاء: ۳۳۷۱۔