کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 159
اعلان کے لیے ہے اسی طرح نماز کے علاوہ دوسرے مصالح کے لیے بھی مستحب ہے، پس جمعہ کی پہلی اذان نماز کا اعلان ہے، جیسے نماز کے وقت مؤذن کا گزر بیٹھے ہوئے غافل لوگوں پر ہو اور وہ بلند آواز سے اعلان کر کے ’’نماز کے لیے چلو‘‘ تو کیا ایسا کہنا بھی بدعت ہے؟ کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جن کا کرنا اب ضرورت نے واجب کر دیا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان پر عمل نہیں کیا گیا تھا، جیسے ایک ہی شہر میں متعدد جگہ جمعہ کاقیام کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ہی جگہ مسجد نبوی میں ہوتا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ضرورت نے عوام کی کثرت کی وجہ سے تعدد جمعہ کو ضروری بنا دیا تاکہ لوگ فریضہ جمعہ پوری طرح اد اکر سکیں ، اور ضرورت کے تقاضے کے مطابق لحاظ کرنا ہی پڑتا ہے، یہاں شریعت کی مصلحت راجح اور اس کا نفع واضح ہے، اور یہ اعلان ان مصالح میں سے ہے جو مقاصد شریعت کے عین مطابق ہے اور اس کی حیثیت بھی جمعہ کی پہلی اذان کی طرح ہے۔ ۲۵۔تراویح کی نماز با جماعت ’’ بدعت حسنہ‘‘ نہیں ہے: اسی طرح بدعت حسنہ کی مثال میں لوگ نماز تراویح کو بھی پیش کرتے ہیں حالانکہ تراویح کو بدعت حسنہ کہنا فہم و تدبر کی غلطی ہے، کیونکہ شریعت میں بدعت حسنہ کا وجود ہی نہیں چاہیے اس کا کوئی بھی قائل ہو، کیونکہ ہر بدعت ضلات ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔)) ’’ہر بدعت ضلالت ہے۔‘‘ لفظ بدعت نکرہ ہے جو عموم پر دلالت کرتا ہے۔ اس طرح نماز تراویح میں جماعت کے قیام کو بھی بدعت کہنا صحیح نہیں ، کیونکہ تراویح کی نماز تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت حسنہ ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل اور اقرار سے مسنون فرمایا ہے۔ صحیح بخاری میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن آدھی رات کو مسجد میں تشریف لائے اور نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ بہت سے لوگوں نے بھی نماز پڑھی، صبح ہوئی تو لوگوں نے رات کی نماز کا چرچا کیا تو دوسری رات کو پہلے سے زیادہ جمع