کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 158
برتن میں جو ہوتا ہے وہی ٹپکتا ہے، لہٰذا کاتب رسالہ کا فرض تھا کہ بحث کی باریکیوں کو تحقیق کے ساتھ پیش کرتا، اور اس کے مشاکل اور دلائل کو صنعت طبیق کے ساتھ واضح کرتا، اس کے ساتھ ساتھ اس کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ جو چیز حق اور تحقیق کی مضبوط بنیاد پر قائم ہے اور اس کو محض تھوک اور پھونک کر ہلایا نہیں جا سکتا، کیونکہ حق کے باقی رہنے کی ضمانت موجود ہے اور جھاگ تو سوکھ کر اڑ جاتا ہے، آدمی حق کے ساتھ مخلوق کی پروا کیے بغیر رہتا ہے اور خلق کے ساتھ بلا غرض و لالچ۔ ۲۴۔جمعہ کی اذان اوّل او ر دیگر اُمور کی حیثیت پر بحث: صاحب رسالہ نے کہا: ’’عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی پہلی اذان کے بارے میں فرمایا: ہم نے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایجاد کیا ہے۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے: ’’جمعہ کی پہلی اذان کا حکم سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ اس اذان کے ذریعہ جمعہ میں جلد آنے کے لیے لوگوں کو تنبیہ کریں ، خلافت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ قول ثابت ہے، البتہ انہوں نے تراویح کی نماز کے متعلق یہ کہا تھا، اور اذان اللہ کا ذکر ہے جو لوگوں کو نماز کے وقت کی خبر دینے کے لیے مشروع کی گئی ہے فجر کی نماز کی تیاری کے لیے بھی رات ہی میں اذان دے دینی جائز ہے، جمعہ کی پہلی اذان بھی اس کے مشابہ ہے۔‘‘ علامہ شاطبی نے اس اذان کو ان مصالح میں شمار کیا ہے جو شارع کے مقاصد کے موافق ہیں ، اور اذان آگ لگنے اور وباء عام کے وقت بھی مستحب ہے، اور بچے کی پیدائش کے وقت بھی اور شریعت اسلامیہ کے بنیادی مقاصد کے حصول اور ان کے بڑھاوے پر، اور مفاسد کے دور کرنے اور ان کے گھٹانے پر قائم ہے، شریعت کی مصلحت راجح اور اس کی مفسدت واضح ہے، اور کوئی فساد انگیز چیز اس میں شامل نہیں ۔ اذان جس طرح نماز کے وقت کے