کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 156
کَسَبَتْ وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۲۸۱) ’’اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی بار گاہ میں پیش کیے جاؤ گے پھر ہر نفس کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ ملے گا اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اس آیت کے نزول کے نو دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، یہ سبب تھا جس کی وجہ سے آپ قرآن جمع نہ کر سکے۔ دوسری مثال یہ ہے کہ جب عربوں نے زکوٰۃ بیت المال میں دینی روک دی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کا اردہ کیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کی رائے سے اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے جنگ کر سکتے ہیں جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کریں ، جب وہ لا الٰہ الا اللہ کہیں گے تو مجھ سے اپنا خون اور مال بچا لیں گے، سوائے اس کے کہ اس کا لینا حق ہو۔‘‘[1] تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُن کو جواب دیا کہ زکوٰۃ لا الہ الا اللہ کا حق ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس دلیل سے یقین کر لیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ پر ہیں اور ہم نے ان کی پیروی کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ ان کو سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دے رہے ہیں تو عوام کے مجمع میں کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ میں اپنا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فرق بتاتا ہوں ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عرب بڑی تعداد میں مرتد ہونے لگے، اور انہوں نے اپنے اونٹ، بکری زکوٰۃ میں دینی روک دیں ۔ ہم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک رائے ہو کر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اے خلیفہ رسول! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی کے اشارے پر جگہ کرتے تھے، فرشتے آپ کی مدد کو حاضر رہتے تھے، اب یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے لہٰذا مناسب ہے کہ آپ چپ چاپ گھر میں بیٹھ جائیے، تمام عربوں سے لڑنے کی آپ میں طاقت نہیں ہے۔ انہوں نے جذبے میں پوچھا: کیا تم سب کا اسی پر اتفاق ہے؟ ہم نے کہا: ہاں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ: ’’اللہ کی قسم! اس رائے کے مقابلے میں تو یہ پسند کروں گا کہ
[1] بخاری، باب فان تابو و أقامو، ح: ۲۵۔