کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 155
لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ: ۳) ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین پورا کیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کی اور تمہارے لیے اسلام سے راضی ہوا۔‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ دین جب پورا ہو گیا تو اب تمام ہونے کے بعد اس کے ناقص بھی ہونے کا وقت آ رہا ہے اور یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا، آپ اس کے بعد ہی لوگوں کو رخصت فرمانے لگے تھے ’’شاید اس سال کے بعد آپ لوگ مجھ سے نہ مل سکیں ‘‘ اور اسی سبب سے اس کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ پھر ایام تشریق کے درمیان ہی یہ آیت نازل ہوئی: ﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُo وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًاo فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًاo﴾ (الفتح: ۱۔۳) ’’جب اللہ کی مدد اور فتح آ گئی اور آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں تو آپ اپنے رب کی حمد کیجئے اور اس سے استغفار کیجئے، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے قریب ہونے کی خبر دی گئی ہے، جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے تفسیر کی ہے کہ: ’’اے محمد! جب اللہ کی مدد آ پہنچی اور فتح یعنی مکہ فتح ہو گیا اور عرب اسلام قبول کرنے کے لیے فتح مکہ کے منتظر تھے اور کہتے تھے کہ اگر آپ نبی ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش پر غلبہ حاصل ہوگا اور آپ مکہ فتح کر لیں گے، لیکن اگر نبی نہیں ہوں گے تو قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آ جائیں گے، اور اسی وجہ سے ہجرت کے نویں سال کو ’’عام الوفود‘‘ کہا جانے لگا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی آخری آیت جو نازل ہوئی وہ یہ تھی: ﴿وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا