کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 153
کر دیے گئے ہوتے، اس فریضہ کی ادائیگی سے غفلت برتنے پر صحابہ کرام گناہ گار ہوئے ہوتے۔ اپنی وحی میں سب سے پہلا جو حکم اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا وہ ’’کتابت‘‘ یعنی لکھنے کا تھا، فرمایا: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍo اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْo﴾ (العلق:۱۔۵) ’’اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو بندھے ہوئے خون سے پیدا کیا پڑھ اور تمہارا رب سب سے معزز ہے جس نے قلم سے سکھایا، جس نے انسان کو وہ بات سکھائی جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ ۲۳۔جمع قرآن کے اسباب: یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ کیا اسباب تھے جن کی بنا پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کی بابت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے فوراً قبول نہیں کی۔ اہم وجہ یہ تھی کہ کچھ نئے مسائل جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی پیدا ہوتے اُن کے حل کرنے میں مختلف رائیں ہو جاتیں اور لوگ کتاب اللہ کے ہوتے ہوئے بھی فی الفور اس سے اس کا حل نہ معلوم کر پاتے کیونکہ موضوع بحث سے متعلق آیت ان کے ذہن سے غائب ہوتی، لوگ بعد میں اس پر غور کرتے او رایک دوسرے سے پوچھ کر مسائل کا حل تلاش کرتے تھے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا مسئلہ جس کا بہت سے لوگوں نے انکار کر دیا تھا اور کچھ عرب یہ کہہ کر مرتد ہو گئے تھے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہوتے تو آپ کو موت نہ آتی، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس موقع پر موجود نہ تھے مدینہ کے کنارے اپنی بیوی سے ملنے گئے تھے، انہیں وفات کی خبر ملی تو تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھول کر فرمایا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ اور مردہ دونوں حالتوں میں کتنے پاکیزہ تھے‘‘ اور منبر پر تشریف لائے، حمد و ثنا کے بعد لوگوں کو خطاب فرمایا: