کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 152
وما سمی الانسان الالنسیہ وما القلب الا أنہ یتقلب ’’انسان کو انسان محض اس کے نسیان کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور قلب کو قلب محض اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ منقلب ہوتا رہتا ہے۔‘‘ اگر قرآن مجموعہ کی شکل میں نہ رہتا تو اس کے بھلا دیے جانے کا خدشہ تھا اور اس طرح قرآن کے اکثر حصوں کو ضائع ہو جانے کا خطرہ تھا، خصوصاً اس آخری زمانے میں جب کہ قرآن کے حفظ کرنے کا لوگوں میں کوئی اہتمام نہیں ، پھر ارشاد الٰہی: ﴿ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرۃ) اور ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَ الْفُرْقَانِ﴾ (البقرۃ) ہدایت سے مراد یہاں حق اور رشد اور سیدھی راہ کی طرف راہنمائی ہے، اور ﴿بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَ الْفُرْقَانِ﴾ کا مطلب ہے اللہ کے حدود، اس کے فرائض، حلال و حرام کو یہ کتاب بیان کرتی ہے، اور فرقان کا مطلب ہے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن ﴿کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ﴾ اور ﴿کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ﴾ اور ﴿کِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰتُہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِقَوْمٍ یَعْلَمُوْنَo بَشِیرًا وَّنَذِیرًا فَاَعْرَضَ اَکْثَرُہُمْ فَہُمْ لَا یَسْمَعُوْنَo﴾ اور ﴿کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ﴾ ان آیتوں میں ’’کتاب‘‘ اور ’’قرآن‘‘ کا مطلب ہے پورا مجموعہ، قرآن صرف کسی چھوٹی سورہ جیسے ﴿اِِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ﴾ اور ﴿ لِاِِیْلٰفِ قُرَیْشٍ﴾ وغیرہ پر پوری کتاب کا اطلاق اور اس کا یہ وصف منطبق نہیں ہوگا، اس لیے قرآن کا جمع کرنا اس اُمت پر فرض تھا کہ دین بھی محفوظ رہے اور کتاب الٰہی بھی، اگر جمع کرنا اس امت پر فرض تھا کہ دین بھی محفوظ رہے اور کتاب الٰہی بھی، اگر جمع قرآن کا یہ اہتمام نہ کیا گیا ہوتا تو کتاب ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹ کر بکھر گئی ہوتی اور اس کی صحت پر لوگوں کا اعتماد ختم ہو گیا ہوتا اور پچھلی کتابوں کی طرح اس میں بھی خشوو زوائد داخل