کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 151
ہوا کہ قرآن کا جمع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کے جمع و حفاظت کا اہتمام فرمایا ہے۔ رہیں دوسری آسمانی کتابیں تو ان کی حفاظت کی ذمہ داری خود ان امتوں پر تھی اور انہوں نے اس بارے میں غفلت و بے توجہی برتی جس کا انجام یہ ہوا کہ ان میں بکثرت تغیر و تبدل ہوا اور وہ اصلی حالت میں محفوظ نہ رہ سکیں ۔ جس کی بابت اللہ کا ارشاد ہے: ﴿فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً فَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْہِمْ وَ وَیلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۷۹) ’’بڑی تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ لیا کرتے تھے پھر کہتے تھے یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ کچھ تھوڑی پونجی حاصل کر لیں تو بڑی تباہی ہے جو انہوں نے لکھا، اور بڑی تباہی ہے جو وہ کماتے تھے۔‘‘ چونکہ اس امت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی آسمانی کتاب اُمت کے سینوں میں محفوظ رہے گی، جس کی وجہ سے یہ اندیشہ تھا کہ انسان بھول چوک کا پتلا ہے ایسا نہ ہو کہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے حافظہ سے بھی اس کے کچھ حصے ضائع ہو جائیں ، کیونکہ ’’انسان‘‘ کو انسان محض اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں ’’نسیان‘‘ کا مادہ موجود ہے، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًاo﴾ (طٰہٰ: ۱۱۵) ’’اور اس سے پہلے ہم نے آدم سے ایک عہد لیا تو وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں پختگی نہ پائی۔‘‘ شاعر نے اسی معنی کو اس طرح ادا کیا ہے: