کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 150
واجب ہے، نیز قرآن کے جمع کرنے کی مصلحت راجح اور منفعت واضح ہے، اور پھر صحابہ نے قرآن کے جمع کرتے وقت اصل قرآن پر کوئی زائد چیز کا اضافہ نہیں کیا، نہ قرآن کے لفظ میں نہ اس کے معنی میں ، اور شریعت کی بنیاد دین کی حمایت اور حفاظت پر قائم ہے جس میں قرآن کی حفاظت بھی شامل ہے۔ لہٰذا قرآن کا جمع کرنا مقاصد شریعت کے عین مطابق ہے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے قرآن کو خود جمع کرنے کی ذمہ داری لی ہے، فرمایا: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo﴾ (الحجر: ۹) ’’ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔‘‘ شریعت الٰہیہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قرآن اپنے الفاظ و خطاب کے اعتبار سے ایک جگہ جمع و محفوظ ہو، ارشاد الٰہی ہے: ﴿اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْآنَہٗo﴾ (القیامہ: ۱۷) ’’ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور اس کو پڑھوا دینا۔‘‘ بخاری ومسلم میں سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے اُترتے وقت شدت محسوس کرتے تھے، چنانچہ جبرائیل علیہ السلام جب قرآن آپ پر پیش کرتے تو اس ڈر سے کہ کہیں بھول نہ جائیں اپنے لب مبارک ہلایا کرتے تھے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ﴾ آپ قرآن کے ساتھ اپنی زبان جلد جلد مت ہلائیے، ہمارے ذمہ ہے قرآن کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوا دینا، یعنی ہم پہلے اس کو آپ کے سینے میں جمع کر دیں گے پھر آپ پڑھتے رہیں گے، اور جب ہم وحی کے ذریعہ اس کو پڑھوا دیں تو آپ کو پڑھیے، یعنی پہلے توجہ سے سنیے اور خاموش رہیے۔ [1] معلوم ہو اکہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے خود ہی قرآن کے جمع و ضبط کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ اس سے ثابت
[1] بخاری، باب فذا قرأنہ فاتبع، ح: ۴۹۲۹۔ مسلم: ۴۴۸۔