کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 15
((یَا عُمَرُ لَقَدْ جِئتُکُمْ بِیْضجائٌ نَقِیَّۃٌ لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا لَا یَزْیغُ عَنَّا بَعْدِیْ اِلَّا ہَالِکٌ وَلَوْ کَانَ اَخِی مُوْسٰی حَیًّا مَا وَسَعَہٗ اِلَّا اَنْ یَتَّبِعَنِیْ۔)) [1] ’’اے عمر! میں اس شریعت کو صاف ستھری لے کر آیا ہوں جس کی رات اُس کے دن کی طرح روشن ہے، میرے بعد جو بھی اس سے انحراف کرے گا برباد ہو جائے گا اور اگر میرا بھائی موسیٰ بھی زندہ ہوتا تو اس کو میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘ اسلام عقیدہ، قول، اور عمل کا دین ہے، لہٰذا عمل کے بغیر اسلام ہی نہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃٌ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَ اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَ لَاوَ ہِیَ الْقَلْبُ۔)) [2] ’’جسم میں ایک ٹکڑا ہے کہ جب وہ ٹھیک رہا تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوا سارا جسم خراب ہو جاتا ہے او روہ دل ہے۔‘‘ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں یہ ارشاد فرمایا کہ اصل چیز قلب کا اعتقاد ہے، اس لیے قلبی عقائد ہی سے بدنی اعمال اچھی اور بری حالت میں وجود میں آتے ہیں ۔ یعنی عقیدہ صحیح ہوا تو عمل بھی صحیح ہوا اور عقیدہ خراب ہوا تو عمل بھی خراب ہوا اورا س کے نتائج بھی بدتر ہوئے اور حضرت عباس بن عبدالمطلب کی حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی پر ہونے پر راضی ہو گیا۔‘‘
[1] مسند احمد: ۳/ ۳۸۷، ح: ۱۵۱۹۵۔ [2] بخاری، کتاب بدء الوحی، باب فضل من استبرأ لدینہ ، ح: ۵۲۔