کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 149
’’یہ قرآن وقفہ واحدہ کیوں نہیں نازل کیا گیا، اس طرح تدریجاً اس لیے ہم نے نازل کیا تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے آپ کے دل کو قوی رکھیں اور ہم نے اس کو ٹھہرا ٹھہرا کر اُتارا ہے اور یہ کیسا ہی سوال لائیں ہم اس کا ٹھیک جواب اور بہتر تفسیر کے ساتھ دیں گے۔‘‘ قرآن لوگوں کے سینوں میں ، کاپیوں میں ، کپڑے کے ٹکڑوں میں اور پتلے پتھروں پر متفرق طور پر باقی تھا، مسیلمہ اور اس کے ماننے والوں سے جب یمامہ کی مشہو رلڑائی ہوئی جس میں بہت سے صحابہ اور حفاظ قرآن شہید ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خوف ہوا کہ کہیں قرآن کے حفاظ کی اس طرح موت سے قرآن کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے چنانچہ انہوں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس مسئلہ پر گفتگو کی اور ان کے سامنے قرآن کے جمع کرنے کا مطالبہ پیش کیا، لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس مسئلہ کو اہم سمجھ رہے تھے، کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے پہلے قرآن کو جمع کرنے کی کوئی مہم نہیں چلائی تھی، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرح سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل میں اس مہم کے لیے کھول دیے اور لوگ اس پر متفق ہو گئے، اور اسے ایک ضروری اور تقاضائے وقت کے مطابق عمل سمجھا۔ پھر قرآن کے جمع کرنے کاکام تین قراء صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذمہ کیا، جن کے سربراہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔ ان حضرات نے پورا قرآن جمع کر لیا صرف ایک آیت رہ گئی تھی، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کو پڑھتے سنا تھا: ﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ اس آیت کو میں نے خزیمہ بن ثابت الانصاری کے پاس لایا اور اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ قرآن کا جمع کرنا صحابہ کرام پر واجب تھا، اس کے بغیر قرآن سے پورے طور پر فائدہ اٹھایا ہی نہیں جا سکتا تھا، اور جس چیز سے کوئی امر واجب پورا ہوتا ہو اس کا انجام دینا بھی