کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 147
۲۱۔’’شجرۃ البیعۃ‘‘ کو اسی لیے کٹوایا گیا کہ وہ مرکز شرک نہ بن جائے: جس درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لی تھی اس کے نیچے خاص طور پر جا کر نماز پڑھتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس درخت کو اس خطرہ کے پیش نظر کٹوا دیا کہ کہیں مستقبل میں نماز کے بجائے لوگ اس درخت کی عبات نہ کرنے لگ جائیں ، کیونکہ ہم سے پہلے والے اسی بناء پر شرک میں پڑ کر تباہ ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے آثار کے پیچھے پڑ کر ان کی قبروں کو بت بنا لیا تھا۔ کسی چیز کا روک دینا اس کے ختم کرنے سے آسان ہے، اور سنت میں میانہ روی بدعت میں کوشش کرنے سے بہتر ہے۔ صاحب رسالہ کو معقول و منقول باتوں میں حقائق کے بدل ڈالنے کا خاص مرض ہے، اور قرآن و حدیث میں تاویل و تحریف کا بھی وہ خصوصی ماہر ہے، وہ اس شخص کے عمل کو صحیح اور سنت حسنہ قرار دیتا ہے جو بدعت و ضلالت کا مرتکب ہوتا ہے جس کی کتاب اللہ سنت رسول اللہ، نیز صحابہ، تابعین اور ائمہ مذاہب اربعہ میں سے کسی کے یہاں کوئی اصل اور وجود نہیں ہے۔ صاحب رسالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و حکم کے الٹے مفہوم پر عمل کر رہا ہے، یعنی جو شخص ضلالت کی طرف دعوت دے تو اس پر اس کا گناہ ہوگا اور قیامت تک جو لوگ اس پر عمل کریں گے سب کا گناہ بھی اس پر ہوگا، اور اللہ اور اس کے رسول کا قول و حکم سچا ہے اور جو شخص ان پر افتراء پردازی کرے اور دین میں ایسی بات کا اضافہ کرے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے وہ جھوٹا ہے۔ اس کاتب کی اولوالعزمی اور عقل و ہوش کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ اپنی ساری جدو جہد اور دوڑ دھوپ لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی دعوت قبول کرنے پر صرف کر دیتا اور لوگوں کو نصیحت کرتا کہ سلف صالحین کے طریقہ پر چلیں اور ان بدترین بدعات سے ان کو منع کرتا ہے، اور ان کے سامنے ان آیات و احادیث کی تشریح کرتا جن میں انبیاء اور صالحین کی قبروں کو ان کے بارے میں غلو کی بنا پر بت قرار دیا گیا ہے، اور لوگوں کو منع کرتا کہ قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنائیں ، ان کو بلند نہ کریں ، ان کے اوپر قبے نہ تعمیر کریں ان پر چراغ نہ جلائیں ، اور نہ قبر پر