کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 146
سے لوگوں کے لیے ایک دستور وضع کر دیا ہے، لیکن اس کی ان رکیک تعلیمات کا شکار صرف کم فہم جہلاء اور علم و معرفت سے نا بلد عوام ہی ہوتے ہیں۔ یہ شخص لوگوں کو معیوب اور باطل کو ملمع کرنے اور لوگوں کو صراط مستقیم سے روکنے کا خاص عادی ہے، اس پر بھی جسارت کے ساتھ کہتا ہے کہ ہم اہل بدعت ہی اہل ایمان سے زیادہ سیدھی راہ پر ہیں ، اور اُس نے خود ہی یہ اعتراف کیا ہے کہ محفل میلاد کا انعقاد بدعت ہے، لیکن بدعت کے لفظ سے بچنے کے لیے اس نے ’’بدعت حسنہ‘‘ کی نئی اصطلاح ایجاد کی اور بدعت حسنہ کی اسی بنیاد پر ان لوگوں کو جو میلاد نبوی کے قائل اور اس پر عامل ہیں خوب تعریف کر ڈالی اور انہیں مستحق ثواب قرار دے دیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے برعکس فرمایا ہے: ایسا قطعی فیصلہ جس سے اس اختلاف کی جڑ کٹ جاتی ہے اور جس پر ساری امت کا اجماع ہے کہ بدعت چاہے حسنہ ہو یا سیئہ ہر ’’بدعت ضلالت ہے‘‘ اب ناظرین ہی فیصلہ کریں کہ ہم صاحب رسالہ کی بات مانیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو مقدم رکھیں ۔ اس لیے کہ بدعت اور جھوٹ کا فعل کبھی صالح نہیں بن سکتا، اور نام بدلنے سے اشیاء کے حقائق نہیں بدل سکتے اور بدعت کا لغوی معنی ہے دین کے پورے ہونے کے بعد اس میں کسی چیز کو بڑھانا، ایک معنی اس کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو کام از راہ ثواب کیا گیا ہو اور شریعت میں اس کی کوئی بنیاد نہ ہو وہ بدعت ہے۔ ۲۰۔شریعت میں بدعت حسنہ کا کوئی وجود نہیں : شریعت اسلامیہ میں بدعت حسنہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس بارے میں بعض علماء کی غلط بیانی کا کوئی اعتبار نہیں ، اور شریعت اسلامیہ نے مصالح کے حصول اور اس کو بڑھانے پر زور دیا ہے اور مفاسد کو دفع کرنے اور اس کو گھٹانے کا حکم دیا ہے، اور وسائل کو مقاصد کا حکم دیا ہے اور جس بدعت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس کی مضرت واضح اور مفسدت راجح ہے، خواہ فی الفور وہ لوگوں پر ظاہر نہ ہو لیکن مستقبل میں اس کا یہی انجام رونما ہوگا، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ رد نہیں کیا جا سکتا اور آپ کی باتیں بدلی نہیں جا سکتیں ۔