کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 145
’’تین چیزوں سے گھر منحوس ہوتا ہے، میلاد، ماتم اور بھوت سے۔‘‘ مصنف نے کہا: ’’اس میں شک نہیں کہ اجر عظیم کا حصول بدعت حسنہ کے اتباع میں ہے جو اس حدیث کی روشنی میں سنت حسنہ ہے: ((مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرَہَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا اِلٰی یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔))یہ حدیث بدعت حسنہ کے مخالفین پر فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے، اور ان کے دعویٰ کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے کہ ’’محفل میلاد نبوی بدعت ہے، اگر یہ کار خیر ہوتا تو صحابہ ہم سے پہلے اس پر عمل کرتے‘‘ بلاشبہ میلاد نبوی کی محفل کا انعقاد بدعت حسنہ اور سنۃ حسنہ ہے، جس نے اس سنت کو جاری کیا اور اس پر عمل کیا اللہ تعالیٰ اس کو اس کا اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کو ثواب عطا فرمائے۔‘‘ جواب میں ہم کہیں گے: ألاتسالان المرء ماذا یحاول أنحب فیقضٰی أم ضلال وباطل ’’تم اس شخص سے پوچھو آخر وہ کیا چاہتا ہے نذر جو پوری کی جائے یا ضلالت و باطل پرستی۔‘‘ یہ اس دور کی آخری خصوصیت ہے کہ جب علم کو جہالت اور جہالت کو علم کہا جانے لگا ہے، بدعت کو سنت اور سنت کو بدعت بنا دیا گیا ہے، اسی ماحول میں بچہ پروان چڑھتا اور بوڑھا ہوتاہے۔ نوبت یہ آ گئی ہے کہ جب کسی بدعت کے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو لوگ شور مچاتے ہیں کہ لو سنت مٹائی جا رہی ہے، اور رسالہ کے مصنف کو قول و منقول میں حقائق کو بدلنے کی خاص علت ہو گئی ہے۔ اس کا خاص کام ہی یہ ہو گیا ہے کہ سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت کہتا پھرے، اور بدعت کو رواج دینے والے مجرم کو مستحق ثواب قرار دے، اس کے لیے وہ باتوں کی ہیرا پھیری اور حق کی علانیہ مخالفت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے اپنی عقل