کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 142
دونوں ہی صورتوں کو اللہ نے پسند فرمایا، الغرض اس حدیث میں بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ جس کی طرف صاحب رسالہ نے اشارہ کیا ہے، کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اگر ہم ’’سنۃ حسنہ‘‘ کی تفسیر کرنا چاہیں تو اس حدیث میں تھیلی والے واقعہ سے بہتر توضیح سنت حسنہ کی نہیں جا سکتی جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنے حسب حیثیت صدقہ دینے کا سلسلہ شروع کر دیا، لیکن فضیلت تو پیش قدمی کرنے والے کے لیے ہے اسی طرح ’’سنۃ سیئہ‘‘ کی مثال ’’محفل میلاد نبوی‘‘ سے زیادہ بہتر نہیں پیش کی جا سکتی، جو مصر کے فاطمیوں کی سنت تھی، پھر ان کے بعد اس کی ضلالت کی دوسروں نے پیروی کی اس لیے کہ لوگ خیر و شر میں ایک دوسرے کی نقالی کرتے ہیں ۔ اور ’’الابداع فی مضار الابتداع‘‘ کے مصنف نے لکھا ہے کہ میلاد کی بدعت سب سے پہلے فاطمیوں نے شروع کی، انہوں نے یہ بدعت عیسائیوں سے سیکھی، کیونکہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں ، اس دن کو بڑے تہوار کی طرح مناتے ہیں ، اس دن دوکانیں ، کارخانے، بازار اور لین دین کی عام تعطیل کرتے ہیں ، ان کی دیکھا دیکھی فاطمیوں نے بھی میلاد النبی کی ایسی ہی تنظیم شروع کر دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اندھی تقلید کے سبب دیکھتے ہی دیکھتے یہ بدعت ایک شہر سے دوسرے شہر میں پھیلتی چلی گئی اور بدعت چاہے جیسی بھی ہو اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ انڈے بچے دیتی ہے اور ایک بدعت سے دوسری بدعت پید اہوتی ہے، اور ہر پیدا ہونے والی بدعت پہلی سے بدتر ہوتی ہے۔ جیسے محفل میلاد کی بدعت سے مصنف نے محفل ذکر نعمت کی بدعت پیدا کی جو اس کے نزدیک واجب ہے، معلوم ہوا کہ بدعت محفل میلاد فاطمیوں کی بدعت ہے۔ اسلامی سنت نہیں ہے، جو عیسائیوں کی میلادی تہوار کی تقلید میں ایجاد کی گئی ہے۔ سلف صالح کے عمل سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ دونوں حدیثوں یعنی ((اِیَّاکُمْ وَ مُحْدَثَاتُ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ۔))اور حدیث (( مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃٌ حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُہَا وَ اَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔)) کے درمیان کوئی تعارض نہیں کیونکہ دونوں دو الگ حقیقت کو بیان کرتی ہیں اور اپنی اپنی جگہ درست